تحریر : طارق حسین بٹ
کوئی میری بات پر یقین کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے پاکستان بدل رہا ہے اور اس نئی تبدیلی کا سہرا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سر ہے جھنوں نے اس تبدیلی کو یقینی بنایا ہے۔سپہ سالار کی للکار کا خوف، ڈر اور ہیبت اس قدر زیادہ تھی کہ بہت سے جغادر ری سیاستدان جھنیں اپنی بہادری،جرات اور برداشت پر بڑا ناز تھا رات کے اندھیرے میں دم دبا کر پاکستان سے بھاگ چکے ہیں۔ان سیاست دانوں کو علم تھا کہ انھوں نے جو کالے کرتوت گھولے ہوئے ہیں ان کا حتمی نتیجہ ان کی گرفتاری کی شکل میں نمودار ہو سکتا ہے لہذا وہ وقت آنے سے پہلے ہی پتلی گلی سے نکل لئے تا کہ ان کی کرتوتوں کا پول نہ کھل سکے۔ان کا بھاگنا ہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ان کا دامن داغدار ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر انھیں شب کی تاریکی میں راہِ فرار اختیار کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن من میں چور ہو تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے اور انسان بھاگنے میں ہی اپنی عافیت تلاش کرتا ہے۔
ان کے ساتھ ان کے وہ حوا ری جو ان کی کرپشن میں ان کے فرنٹ مین تھے وہ بھی رو پوش ہو چکے ہیں۔بعض کے بارے میں تو شنید ہے کہ وہ کشتیوں سے بھا گے تھے کیونکہ ائر پورٹ پر انھیں اپنی گرفتاری کا خوف تھا۔کچھ گلگت بلتستان اور چین کے راستے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے کیونکہ انھیں یقین تھا کہ احتساب کا پھندہ کسی بھی وقت ان کے گلے میں پڑ سکتا ہے لہذا بہتری اسی میں تھی کہ وہ اپنی جان بچانے کی فکر کرتے اور انھوں نے ایسا ہی کیاکیونکہ لوٹ مار کا بازار تو وہ پھر بھی گرم کر سکتے تھے کیونکہ اس عارضی احتساب کے بعد حکمران تو انہی کے آقائوں نے ہونا ہے جو انھیں لوٹ مار کی کھل چھٹی دیں گئے اور وہ ساری کسریں ایک ہی بار دوباہ نکال لیں گئے ۔آج پاکستان ایک ایسی سٹیج پر پہنچ چکا ہے
جہاں پر اب کرپشن کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا ہر وہ سیاستدان یا بیوو کریٹ جو کرپشن کے مزے لوٹنا چا ہتا ہے اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا ہو گا کیونکہ اب لوٹ مار کو مزید برداشت کرنا ممکن نہیں رہا ۔کرپشن کا دروازہ اب سختی سے بند کر دیا گیا ہے جس کا ادراک ہر پا کستا نی کو ہو رہا ہے ۔عوام کو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان ایک نئے فیز میں داخل ہو رہا ہے جہاں دھشت گردی اور کرپشن کا کو ئی امکان نہیں ہو گا اور ایسا کرنے والے سارے بھانڈ اپنے انجام سے دو چار ہوں گئے لہذا ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے ہاتھ روک لیں تا کہ انھیں کل کسی بھی قسم کے پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اگر وہ حالات کی نبض پڑھنے کا ادراک رکھتے ہیں تو انھیں خبر ہو جانی چائیے کہ حالات کروٹ لے چکے ہیں لہذا ہر وہ شخص و ملکی دولت لوٹنے میں فنکار بنا ہوا تھا اب اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔
پاکستان قوم جاگ چکی ہے اور اسے جگانے والا اور کوئی نہیں بلکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہے ۔قوم اپنے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے بے تاب ہے۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے لہذاایسے تمام بھوتوں کے لئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی چھڑی ہی جادو کا کام کر رہی ہے ۔،۔کیاکبھی کسی نے یہ سوچا تھا کہ چین جیسا ملک جہاں کرپشن کے انبار لگئے ہوئے تھے وہاں پر کرپش بالکل ناپید ہو جائے گی اور کرپشن کرے والوں کو پھانسی کی سزا سنائی جائے گی ؟پاکستان کو بھی کرپشن کے خلاف نئی قانون سازی کرنی ہو گی تا کہ کرپٹ عناصر کا محاسبہ کیا جاسکے اور انھیں عبرت ناک سزائیں سنائی جا سکیں،جب تک ان کے لئے سخت سزائیں نافذ نہیں ہوں گی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گئے۔ ہمارے سیاستدان اور بیوو کریٹ خالی وعظ اور لیکچر ز سے سدھرنے والے نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اس سے قبل بھی وعظ اور لیکچرز بہت سنے ہوئے لہذا یہ ان پر اثر نہیں کرتے۔
جب تک چند افراد کو ٹانگا نہیں جائے گا کرپشن کا ناسور یونہی پاکستا ن کو نیست نابود کرتا رہے گا ۔ یہ سچ ہے کہ فوجی عدالتیں قائم ہو چکی ہیں جس سے عوام نے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں کیونکہ ہمارا جو ڈیشل سسٹم ملزموں کو سزائیں سنانے میں ناکام ہو چکا ہے۔فوجی عدالتیں اس لحاظ سے خوش آ ئیند ہیں کہ ان میں سستا اور فوری انصاف ہو گا اورمجرموں کو وقت کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ججز پر دھشت گردوں کی جو ہیبت تھی وہ بھی ختم ہو جائے گی اور پھر سیاست دانوں کا جو اثرو رسوخ تھا وہ بھی بے اثر ہو جائے گا کیونکہ فوجیوں کو زیرِ دام رکھنا یا خریدنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔
اپنی جان کا نذرانہ دے کر وطن کی حفاظت کرنے والوں سے سودے بازی نہیں ہو اکرتی ان کے ہاں صرف وطن کی محبت اور اس کا استحکام ہوتا ہے اور وطنِ عزیز کا ہر دشمن ان کا ذا تی دشمن ہو تا ہے لہذا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ کرپٹ عناصر اپنے انجام سے بچ نہیں پائیں گئے۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ سارے سیاسی گدھ جو پاکستان کو بے دردی سے نوچ رہے تھے انھیں واپس پاکستان لایا جائے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب یا جائے ۔بڑی مچھلیاں اپنے بچائو کے لئے اب ہر طرف بھاگ رہی ہیں انھیں لیکن اہمیں ان کے بھاگنے پر اکتفا نہیں کرنا چائیے بلکہ ہر ممکن کوشش کرنی چائیے کہ یہ گندی مچھلیاں پاکستان واپس لائی جائیں اور ان کے کالے کرتوتوں سے عوام کو آگاہ کیا جائے تا کہ انھیں بھی یقین ہو سکے کہ ان کے قائدین کے اصلی چہرے کتنے گندے اور بھیانک ہیں ۔جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا یہ ایک دفعہ پھر عوام میں اپنی شرافت اور پاک بازی کا ڈرامہ رچا لیں گئے اور عوام کو ایک بار پھر دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گئے۔
ہمارے وہ سیاسی کارکن جن کے مفادات اس طرح کے سیاسی راہنمائوں سے وابستہ ہوتے ہیں وہ ان کی پارسائی اور عظمت کی قسمیں کھاتے نہیں تھکیں گئے ور انھیں وطنِ عزیز کے لئے ناگزیر قرار دیتے سے تامل نہیں کریں گئے لیکن اب سب کچ قصہِ ماضی بننے والا ہے ۔ا ن کی اپنی ساری شان و شوکت اور رعب و دبدبہ انہی قائدین کی وجہ سے ہوتاہے کیونکہ وہ اگر انھیں اپنی جماعت کا ٹکٹ نہ دیں تو وہ ممبر اسمبلی کیسے بنیں گئے وزیر کے منصب پر کیسے فائز ہوں گئے اور پھر کرپشن کا دھندا کیسے کریں گئے ؟ان کا سار ا واویلا اپنی ذاتی منفعت، مفادات اور ٹور ٹپے کے لئے ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا سارا زورِ بیان اپنے لیڈر کی پارسائی ثابت کرنے میں صرف ہوتاہے اور یوں ایک مجرم شخص کو قوم کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہوتاہے۔ہر پاکستانی کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کو ذاتی مفادات سے مقدم رکھے تا کہ یہ ملک ترقی کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکے۔
اگر کسی کو یہ دیکھنا ہے کہ اس کا لیڈر پاکستان سے کتنا مخلص ہے تو وہ یہ دیکھے کہ اقتدار میں آنے سے قبل اس کے پاس کتنی د ولت تھی اور اب اقتدار کے سہانے دنوں میں اس نے اس میں کتنا اضافہ کیا ہے ؟ عوام لیڈران کو اس لئے منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گئے لیکن اگر لیڈران عوام کی بجائے اپنی حا لت بہتر بنانے میں جٹ جائیں تو پھر ایسے لیڈران کی نہ صرف مخالفت ضروری ہے بلکہ انھیں عدالت تک لے جانا بھی ہمارا فرض ہے۔پاکستان کی یکجہتی،اس کی ترقی اور اس کی بقا سے زیادہ ہمیں کوئی بھی عزیز نہیں ہونی چائیے کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کی جائے پناہ ہے جس کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ ہے ۔یاد رکھیں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو کسی اصول اور ضا بطے کی پابند ہوتی ہیں۔جو قومیں جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے کی صلا حیت سے عاری ہو جاتی ہیں انھیں حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔
ہمارے پاس یہ سنہری موقعہ ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر لیں اور وہ تمام افراد جو کرپشن اور لوٹ مار کے عادی ہیں انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔،۔یاد رکھو آرمی چیف جنرل راحیل شریف جیسے سپہ سالار روز روز نہیں ملا کرتے ۔لوگ تو ا س کی مدتِ ملازمت کے ختم ہونے کا انتطار شدت سے کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بعد پھر ان کی چاندی ہو جائے گی لیکن ممحبِ وطن پاکستانیوں کو امید ہے کہ ایسے تمام کرپٹ عناصر کی آرزو محض آرزو ہی رہے گی۔ کیونکہ احتساب کا وہ پہیہ جو اس وقت حرکت میں آ چکا ہے وہ ایسے تمام عناصر کو اپنے نیچے کچل کر رکھ دے گا لہذا اپنی چاندی کے دن وہ دوبارہ دیکھ نہیں پائیں گئے۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ