تحریر۔۔۔راشد علی راشد اعوان
بالاکوٹ کا نام جب بھی پردہ سماعت سے ٹکراتا ہے تو تباہی کے وہ سانحات انگ انگ کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں ویسے بھی جب اس ملک کے برباد عوام کو کبھی زلزلے کی تباہی گھیر لیتی ہے تو کبھی سیلاب کی موجیں، گزشتہ چند دنوں میں سینکڑوں غریب ڈوب چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں،سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں تو کوئی اور زخم تازہ ہونے جا رہا ہے،نو سال قبل بالاکوٹ کو جس تباہی نے گھیرا تھا آج بھی اس کے آثار اسی طرح کہیں نہ کہیں نظر آرہے ہیں شاید ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے محسن نقوی نے کہا تھا کہ
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
قوم اپنے زخم چاٹ رہی ہے توسرمایہ دار حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی سیاسی نورا کشتی بھی جاری و ساری ہے، میڈیا کی جانب سے اس فلاپ ڈرامے کی بے دریغ اور بے رحم کوریج نے سماجی نفسیات کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے، اس نظام زر کی معیشت عوام کا قتل عام کر رہی ہے تو اس بیہودہ سیاست کی نحوست نے محنت کشوں اور نوجوانوں پر سیاسی بے حسی اور سماجی بیگانگی کو مسلط کر رکھا ہے، غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، دہشت گردی اور ناخواندگی کے زخم کیا کم تھے؟ یا بجلی کے بلوں کے جھٹکے ناکافی کہ اب اس ”قدرتی”آفت نے یہاں کے محروم باسیوں کو آدبوچا ہے؟ بدعنوان سیاست ہو یا قاتل معیشت، یا پھر ”قدرتی” آفات،اجڑتا غریب اور کمزور ہی ہے، اس نظام میں نام نہاد قدرتی آفات بھی طبقاتی ہیں جو استحصال زدہ محروموں کو ہی نشانہ بناتی ہیں، ملاؤں کے مطابق یہ سیلاب یا زلزلے قہر خداوندی ہیں، لیکن یہ قہر پہلے سے عذابوں میں گھرے غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟
دنیا کا وہ کون سا گناہ، جرم اور ظلم ہے جو حکمران طبقے کے محلات میں نہیں ہوتا؟ زلزلوں اور سیلابوں میں کتنے سرمایہ دار یاجاگیر مرتے ہیں؟ 2005ء میں کشمیر کاایک ملا منبر پر بیٹھ کر زلزلے کو ”قہر خداوندی”ثابت کرنے میں مصروف تھا،صبر اور تحمل کا جب ضبط ٹوٹا تو انہیگناہگاروںنے اس کا وہی حشر کیا تھا جو لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میںہر اس گماشتے کا ہونے والا ہے جو اس قوم کی بے بسی پر رقص اور اپنی عشرت کی خاطر اس قوم کو تماشہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں
حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی آفت ”قدرتی” نہیں ہوتی، نسل انسانی کی تاریخ ہی قدرتی آفات پر قابو پانے اور فطرت کو اپنے تابع کرنے سے عبارت ہے، وسائل پر قابض طبقہ ان سیلابوں سے بہت دور میٹرو پولیٹن شہروں کے پوش علاقوں میں بستا ہے، ان کے بنگلے زلزلوں میں منہدم ہوتے ہیں نہ ہی غربت کے سمندر میں قائم امارت کے جزیروں تک قحط پہنچ سکتے ہیں، غریبوں کے کچے مکان اور جھونپڑے ہی اجڑتے ہیں، 1943ء کے بنگال میں تیس لاکھ زندگیوں کا چراغ گل کردینے والے انگریز سامراج کے پیدا کردہ قحط پر ساحر لدھیانوی کے اشعار ایسی ہر بربادی پر صادق آتے ہیں:
زمیں نے کیا اسی لئے اناج اگلا تھا؟
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
پچاس لاکھ افسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خاموش ہونٹوں سے، دم توڑتی نگاہو ں سے
بشر، بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
بتایا جاتا ہے کہ19ویں صدی میں راجستھان کے رن کچھ علاقے کے ہندو ساہوکار ساون سے پہلے ایک بڑی ساموہک پوجا کروایا کرتے تھے یا شاید اب بھی کروا رہے ہوں یہ کنجوس ساہو کار اس اجتماعی پوجا پاٹ کے انتظامات پر بے دریغ اخراجات کیا کرتے تھے اس پوجا میں دیوتاؤں سے بارش نہ ہونے کی پراتھنا کی جاتی تھی تاکہ سوکھے کے مارے کسان نسل در نسل ساہوکاروں کے سودی قرضوں کے محتاج رہیں اور یہ استحصالی کاروبار چلتا اور بڑھتارہے، مذہب کوئی بھی ہو، استحصال کی واردات نہیں بدلتی، ہمارے سرمایہ دار حکمران ذرا جدید قسم کے ساہو کار ہیں، مگر مچھ کے آنسو بہانے والے یہ سرمایہ دار تباہ کاریوں کے ذمہ دار اس نظام کے محافظ ہیں، ہیلی کاپٹر سے بربادی کے نظارے کئے جاتے ہیں
سیاست چمکائی جاتی ہے، فوٹو سیشن ہوتے ہیں، ”عالمی برادری”سے امداد کی اپیل کی جاتی ہے اور پھر یہ امداد نچلی و بالائی افسر شاہی سے لے کر سیاسی اشرافیہ تک کی ”غربت” دور کرنے کے کام آتی ہے، این جی اوز اور ”امدادی” کاموں میں سرگرم مذہبی اور کالعدم تنظیموں کی چاندی الگ ہوتی ہے،”سول سوسائٹی” کی کئی تنظیمیں بھی اس بہتی گنگا میں کود پڑتی ہیں، 2005ء کا زلزلہ ہو، تھرپاکر میں حالیہ قحط سالی یا پھر ہر سال آنے والے سیلاب، ہر آفت خیرات کے اس کاروبار کو فروغ دیتی ہے،ادھر میڈیا پر یہ خبریں اور مناظر مسلسل چلائے جائیں گے کیونکہ دھرنے اب ناظرین کو بور کرنے لگے ہیں، لیکن یہ بات کوئی نہیں کرتا کہ بھیک دینے کے لئے بھکاریوں کا ہونا بھی ضروری ہے
اگر معاشرے میں محتاج نہ ہوں تو یہ مخیر حضرات خیرات کا ثواب کیسے کمائیں گے؟ محرومی نہ ہو تو خیرات اور بھیک کی ضرورت ہی کیاہے؟یہ بات تو ثابت و آزمودہ ہے کہ حکمران طبقہ دردمندی کا جتنا بھی ڈھونگ رچا لے، درد کے احساس سے وہی واقف ہوتا ہے جسے زخم لگتا ہے، غریب ہی غریب کا غم جانتا ہے، امداد اور ریسکیو کی سرگرمیوں میں عوام ہی خلوص نیت کے ساتھ سب سے آگے ہوتے ہیں،ان باتوںکا اثر تو شاید ہی کوئی لے کیونکہ بدقسمتی سے 67 سال بعد بھی انتہائی بنیادی سماجی اور معاشی انفراسٹرکچر مضبوط اور دیر پا بنیادوں پر تعمیر نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی موجودہ سیاستدانوں سے اس کی توقع رکھی جا سکتی ہے،سب کا اللہ ہی حافظ ہے۔