تحریر: طارق حسین بٹ۔ چیرمین پیپلز ادبی فورم
١٦ دسمبر ١٩٧١ ایک ایسا دن ہے جس دن بھارتی گٹھ جوڑھ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تھا۔ مکتی باہنی کی مددو اعانت کا اقرار تو خود موجودہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں ڈھاکہ یاترہ کے دوران اپنے تازہ ترین خطاب میں کیا تھا۔ ایک خود مختار اور آزاد ملک کے داخلی معاملات میں کھلے عام مداخلت پر بھارتی وزیرِ اعظم کو شرم آنی چائیے تھی اور اسے اپنے اس اقدام پر اقوامِ عالم سے معافی مانگنی چائیے تھی۔کسی آزاد ملک کے وطن دشمن باغیوں کی مدد کرنا عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی جو بھارت جیسے جمہوری ملک کو زیب نہیں دیتا تھا لیکن جب ازلی دشمن کو نیچا دکھانا مقصود ہو تو پھر عالمی جرم بھی فخر بن جایا کر تا ہے اور یہی کچھ بھارتی قیادت نے بھی کیا تھا۔در اصل یہ وہ بدنیتی تھی جس کا رونا تقسیمِ ہند کے وقت سے بھارتی قیادت کی جانب سے مسلسل رویا جا تا رہا ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنا ان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر تھا۔
ہندوئوں کے لئے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بن کر دنیا کے نقشِ پر ابھر ہا تھا ااور اس کی یہی انفرادیت ہندو ئوں کو مشتعل کرنے کے لئے کافی تھی۔سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے بعد پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت کا وجود ہندوئوں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا کیونکہ انھیں مسلمانوں کے وجود سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا وہ دور یاد آ جاتا تھا جس میں مسلمانوں نے برِ صغیر پر حکومت کی تھی اورہندو ان کے زیرِ نگین تھے لہذا کسی بھی مضبوط اسلامی مملکت کا وجود ہندوئوں کے لئے مو ت کے پیغام سے کم نہیں تھا اور شائد یہی وجہ تھی کہ وہ پاکستا ن کے نام سے بدکتے تھے۔وہ تو ہزار سالہ غلامی کا بدلہ مسلمانوں کو محکوم بنا کر لینا چاہتے تھے لیکن علامہ اقبال کی جہاں دیدہ نگاہہوں نے اس خطرے کو بر وقت بھانپتے ہوئے ١٩٤٠ میں ایک علیھدہ اسلامی مملکت کا تصور پیش کر کے ساری سیاسی بساط الٹ دی تھی۔
مہاتما گاندھی ،پنڈت جواہر لال نہرو اور دلبھ بھائی پٹیل نے بڑا واویلا کیا کہ صدیوں سے رہنے والی دونوں قومیں ایک ہیں لہذا ان کے اندر تقسیم گائو ماتا کے ٹکرے کرنے کے مترادف ہو گی جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ان کا نعرہ تھا کہ ہم ایک تھے ایک ہیں اور ایک رہیں گئے کہ یہی برِ صغیر کا طرہِ امتیاز ہے اور اس امتیاز کو مذہب کے نام پر کسی کو مٹا نے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن ہندو لیڈر شپ کی ساری خوش فہمیاں اس وقت کاغذ کی ایسی کمزور نائو ثابت ہوئیں جو دو قومی نظریے کے طوفان کے سامنے بحرِ ہند میں غرق ہو گئی اور ان کی اپنی نظروں کے سامنے متحدہ ہندوستان کا خود ساختہ نظریہ دو قومی نظریے کی شمشیرِ برہنہ سے پاش پاش ہو گیا اور مقدس گائو ماتا ٹکرے ٹکرے ہو کر رہ گئی اور ہندو قیادت بے بسی کی تصویر بنے اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھتی رہی۔
کس میں طاقت تھی کہ وہ دو قومی نظریے کی شمشیر کے وار سے بچ جاتا؟اس شمشیر کی کاٹ اتنی تیز تھی کہ جو بھی اس کی زد میں آیا وہ گھائل ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اس شمشیرِ برہنہ کے علمبردار تھے اور ہندو قیادت اس شمشیر برہنہ کا نشانہ تھی جس میں ہندو قیادت کو ہزیمت کا سامنا کرناپڑا تھالہذا اپنی اس ہزیمت کا بدلہ چکانا ہندو قیادت اپنی مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔
دو قومی نظریہ ایک حقیقت ہے اور جب تک یہ دنیا باقی رہے گی یہ ایک حقیقت بن کر چمکتا رہے گا کیونکہ کفر و الہاد کے اندھیروں میں اسلام کی روشنی ہی انسانیت کی آخری امید ہے جسے جلائے رکھنا دینِ حق کے پرستاروں کا فرضِ اولین ہے ۔اسلام اپنی ترکیب میں ایک علیحدہ طرزِ زندگی کا علمبردار یے جس کے لئے اس کی اپنی حکومت اور زمین ضروری ہے اور یہی دو قومی نظریہ تھاجس کے تحت برِ صغیر کی تقسیم عمل میں آئی تھی ۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مسز اندرا گاندھی نے جو تقریر کی تھی اس میں اس نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والو دیکھ لو آج دو قوی نظریے کو ہم نے خلیجِ بنگال میں غرق کر دیا ہے ۔ ہم نے اس وقت کی مسلمان قیادت کو بہت سمجھایا تھا کہ تمھارا نظریہ باطل ہے یہ وقت کے ساتھ نہیں چل سکے گا لیکن ہماری کسی نے نہ سنی لیکن آج دو قومی نظریے کے حاملین کو جان لینا چائیے کہ وہ غلطی پر تھے اور ہماری سوچ صحیح تھی۔
اسی طرح کی سوچ کا اظہار پنڈٹ جواہر لال نہرو نے بھی اس وقت کیا تھا جب اس نے ١٩٢٩ میں نہرو رپورٹ پیش کی تھی اور مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ برِ صغیر میں دو قوتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری کانگریس لہذا مسلمانوں کا مقدر وہی ہو گا جس کا فیصلہ کانگریس کرے گی۔ابھی پنڈت جواہر لال نہرو کی یہ آواز فضائوں میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے للکارا کہ برِ صغیر میں دو قوتیں نہیں بلکہ تین قوتیں ہیں اور تیسری قوت مسلمانوں کی ہے لہذا ان کی رائے اور مرضی کے بغیر برِ صغیر میں کوئی سیاسی حل ممکن نہیں ہے۔
علامہ اقبال کا علیحدہ اسلا می ریاست کا مطالبہ در اصل نہرو رپورٹ پر مسلمانوں کا پہلا ردِ عمل تھا جسے کانگریس نے در خورِ اعتنا نہیں سمجھا تھا لیکن وقت کی بے رحمی تو دیکھئے کہ کہ اس نظریے کی مخالفت کرنے والی ہندو قیا دت کو اسی دو قومی نظریے کے تحت تقسیمِ ہند کے لئے آمادہ ہونا پڑا کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل ممکن نہیں تھا۔دو قومی نظریے کو رد کرنے کی صورت میں کشت و خون کا جو طوفان اٹھنے والا تھا اس نے پورے برِ صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لینا تھا لہذا دو قومی نظرئے کے تحت تقسیمِ ہند کے فارمولے کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہِ کار نہیں تھااور یہی دو قومی نظریے کی سچائی تھی کہ مخالفین کو بھی اس کے سامنے جھکنا پڑا تھا ۔،۔
مسز اندرا گا ند ھی کو مرے ہوئے تیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور ان تیس سالوں میں وہ دو قومی نظریہ جسے وہ بنگال میں بہا دینے کا فخریہ اعلان کیا کرتی تھیں وہی دو قومی نظریہ آج اس کے اپنے ملک کے اندر پوری شدت سے سر اٹھا رہا ہے۔بنگال تو پھر بھی ایک علیحدہ ملک پاکستان کا حصہ تھا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ خود بھارت کے اندر ہندو مسلم فسادات ایک حقیقت بن کر سامنے آ ر ہے ہیں جو بھارت کی سا لمیت اور ایکتا کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔کسے خبر تھی کہ دو قومی نظریے کوخلیجِ بنگال میں بہانے والی قوم آزادی کے ٦٨ سالوں کے بعد ایک دفعہ پھر اسی مقام پر کھڑی ہو جائے گی جہاں پر وہ آزادی کے وقت کھڑی تھی۔اگر آزادی کے وقت اسے پاکستان جیسے مطالبے کا سامنا تھا تو اس وقت اسے مسلمان شناخت کا سامنا ہے ۔مسلمانوں کی یہی شناحت ١٩٤٧ میں ایک علیحدہ مملکت کے مطالبے پر منتج ہو ئی تھی لہذا بھارت کے حصے بخرے ہونا ایک اٹل حقیقت ہے جسے بھارتی فوجیوں کی بے رحمی اور ہندوترا کی لوریوں سے سلا یا نہیں جا سکتا ۔علیحدگی کا ایک احساس ہے جو مسلمانوں کے اندر پرورش پا رہا ہے اور نریندر مودی جیسی سرکار اسے مزید تقویت بہم پہنچا رہی ہے۔
ریاستی مشینری کی موجودگی میں ہر قسم کے مطالبے کو ریاستی قوت سے کچل دیا جا تا ہے لیکن جدو جہد کے دوران ایک وقت ایسا آ جا تا ہے جہا ں ریاست کی طاقت ختم ہو جاتی ہے اور عوامی قوت فتح یاب ہو جاتی ہے۔بھارت میں مسلمانوں کا احساس ایک ایسی ہی قوت میں بدلتا جا رہا ہے جہاں ان کے لئے اب ایک ہی راستہ باقی بچا ہے اور وہ راستہ ہے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا ۔ یہ کیسے ممکن ہو گا ،کون اس میں حقیقت کے رنگ بھرے گا ۔کون مسلمانوں کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے گا اس کا فیصلہ وہی ذات ِ بے ہمتا کرے گی جس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسی شخصیت کو میدان میں اتارا تھا۔ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور اس مناسب وقت پر فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی لہذا کوئی نہ کوئی شخصیت پردہِ شہود پر جلوہ افروز ہو جاتی ہے اور پھر وہ کچھ ہو جاتا ہے جو ناممکنات میں شمار ہوتا ہے۔
وقت کے بارے میں پشین گوئی کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا بلکہ حالات کا دھارا خود بخود اپنا راستہ بنا تا ہے۔کس نے سوچا تھا کہ ١٤ اکست ١٩٤٧ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان کی تخلیق کا دن ٹھہرے گا لیکن ایسا ہی ہوا۔آج کا بھارت اپنے داخلی انتشار کی بدولت تباہی کے جس دہانے پر کھڑا ہے اس کا فطری نتیجہ اس کے حصے بخرے ہونا ہے ۔میری آنکھ آنے والے دنوں کا جو منظر نامہ دیکھ رہی ہے اس نے ایک دن حقیقت کا جامہ پہننا ہے لیکن ایسا کب ہو گا اس کے بارے میں حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں ہے لیکن ایسا ہو کر رہے گا کیونکہ میری آنکھ تاریخ کا یہی سچ دیکھ رہی ہے۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ۔ چیرمین پیپلز ادبی فورم