تحریر: میر افسر امان
سچ کا سفر ایک کتاب ہے، مسلمانوں کے اسماعیلی فرقے کے صدرالددین ہاشوانی صاحب عرف صدرو بھائی کی جو خود نوشت سوا نح عمری کا نچوڑ ہے۔ اس کتاب کو پیپلز پارٹی نے مارکیٹ سے اُٹھالینے کا نوٹس جاری کیا تھا۔ اس لیے کہ اس کتاب میں کچھ کچھ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی بھی داستان ہے۔مگر یہ کتاب اب بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔ بین لاقوامی طور پر مشہور ایک پاکستانی صنعت کار کی داستان، جو اپنے لوگوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ، پاکستان کی بقا اور اپنے رب پر مکمل اور غیرمتزلزل ایمان رکھتا ہے۔ا ن کے خاندان کے کاروبار کا سلسلہ ا ن کے پردادا مکھی ہاشو سے شروع ہوتا ہے جو رالی بردرز برطانیہ کاروباری ادارہ تھا جو کراچی میںجانوروں کے کھالوں کا کاروبار کر تا تھا۔ یہ کاروبار صدرالدین ہاشوانی کے والد حسین ہاشوانی کو منتقل ہوا۔ حالات نے پلٹا کھایا اور کاروبار بیٹھ گیا۔
انہوں نے چار پہیوں والے ٹرک اور بولان میل ریل پر سالوں سفر کر کے بلوچستان کے یخ بستہ صحرائوں پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں میں اجناس کی سپلائی کا کام کیا۔ کبھی مزدروں کے ساتھ غلے کی بوریاں بھی ٹرک پر لوڈ کرنی پڑتی۔قلات میں بل وصولی کے دوران ہوٹل میں موم بتی کی روشنی میں لکڑیاں جلا کر کمرہ گرم کرنا پڑتا۔ اس نے پاکستان کے نوجوان نسل کومحنت اور محبت کا درس دیا ہے اپنی زندگی کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے نوجوانوں کو بتایا ہے کہ زندگی میںایمان داری، غیر متزلزل عزم اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین انسان کو دنیا کی ہر رکاوٹ کو دور کر دیتا ہے۔ یقینا! وہ معمارانِ قوم میں سے ہے ،جنہوں نے جہان خود پیدا کیا۔ اپنی کدال سے اپنا راستہ خود تراشہ ہے۔اب وہ پاکستان کے میریٹ اور پرل کانٹی نینٹل درجنوں ہوٹلز کا مالک ہے۔تیل اورگیس نکالنے کے کاروبار سے منسلک ہے۔بلکہ اور بھی کئی کاروباری ادارے چلارہا ہے۔وہ کپاس کا بادشاہ بھی کہلایا۔ چاول کے کاروبار میں بھی ترقی کی۔ وہ لکھتے ہیں گو کہ بھٹو کو اقتدار میں لانے والے جرنیلوں سے ان کے تعلقات قریبی تھے مگر میں نے بھٹو سے ملنے کا کبھی بھی نہیںسوچا تھا۔ کیونکہ بھٹو اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے تھے۔
ہاشوانی صاحب نے بھٹو دور میں اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل کا پلاٹ حاصل کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں پیپلز پارٹی نے ١٩٧٢ء تا ١٩٧٤ء میں قومیانے کی ناکام مہم چلائی اورا سٹیل،سیمنٹ،بینکوں، تعلیم،کپاس، چاول کے کارخانوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ پیپلز پارٹی نے کاروباری لوگوں کو لٹیرے کہا۔اس غلط پالیسی کی اب پاکستان قیمت ادا کر رہا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ڈنگومل کمپنی جس کے ساتھ مل کر بھٹو صاحب نے وکالت شروع کی تھی کے رام چند انی ڈنگومل نے تعلیم کو قومی تحویل میں لینے پر اعتراض کیا۔ تو بھٹو صاحب نے قہقہ لگایا اور کہا پریشان مت ہو تمہارے اور میرے بچوں نے کون سا پاکستان میں تعلیم حاصل کرنی ہے۔کیا وہ یہاں پڑھ رہے ہیں؟ یہ تو اُس جیسی ہی بات ہوئی جو اصغر خان نے اخبارات میں کہی تھی کہ بھٹو صاحب نے کہا تھا،آئو دونوں مل کر قوم کو بے وقوف بناتے رہیں۔ بھٹو نے منہ پھٹ کائوس جی کو بھی جیل میں ڈال دیا تھا۔ بہر حال ان کے بھٹو صاحب سے تعلوقات اچھے نہیں تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھٹو کے بعد ضیاالحق سے کراچی کی ایک ملاقات میں، جس میں بھٹو کوبُرا بھلا کہا جا رہا تھا، میں ضیاالحق سے کہا بھٹو نے توملک تباہ کر دیا مگر آپ بھی توان ہی بیوروکریٹس کو نواز رہے ہیں جو تباہی کے ذمہ دار تھے۔
ٹی وی کھولیں تو ملا ہی ملا نذر آتے ہیں۔برائے کرم معیشت پر بھی زور دیں ۔ اس پر مجھے ناپسندیدہ شخص قرار دے دیا گیا۔ پورے خاندان کا نام ایکزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔ میرے اور میرے کاروبار کی ظالمانہ تحقیقات کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ میں ہوٹلینگ کے کاروبار سے پاکستان کا نام روشن کر رہا تھا اور آمر نے پاکستان کو میرے لیے نامہربان بنا دیا۔تحقیق کے دوران ہر پیشکی پر برگیڈیئر تجمل حسین پوچھتا کیا ذوالفقار علی بھٹو تمہارا خفیہ شراکت دار تھا۔ تم نے بھٹو دور میں پلاٹ حاصل کیا تھا۔ میں کہتا میری تو کبھی اس سے ملاقات تک نہیں ہوئی۔ مجھے بینظیر بھٹو کو فنڈ دینے کے جرم میں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔مجھے شراب پینے کا مجرم قرار دینے کی کوشش کی گئی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔الہیٰ بخش سومرو صاحب نے مجھے کہا فوراً کراچی چھوڑ دو۔ تمہارے خلاف ایم پی او کے تحت مقدمہ بن رہا ہے۔ میں نے کراچی چھوڑ دیا۔ ملک میں اِدھر اُدھر چھپتا رہا۔ مجھے مسلم لیگ کے حبیب اللہ جو میرے دوست تھے نے کہا تم پیر پگارا سے مدد کی دروخواست کرو۔ میں پیر پگارا سے ملا تو انہوں نے کہاتم نے بینظیر بھٹو کورقم دی ہے ؟ میں نے کہا نہیں پیر صاحب بالکل نہیں۔ پیر صاحب نے ضیاالحق اور جونیجو سے بات کی اور مجھے کہا گیا کہ تم کراچی جا سکتے ہو۔
مقدمہ واپس لے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیںمیرٹ ہوٹل میں ڈسکو کلب میں کراچی کے نوجوان امڈ آتے تھے۔١٩٨٣ء میں ایک رات مجھے جی ایم کا فون آیا کہ ڈ سکو کلب میں فائرنگ ہو رہی ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں بھاگ کر جانیں بچا رہے ہیں ۔ میں نے کہا محافظوں کی فوج اور بلیک بیلٹ تمھارے پاس موجود ہیں۔ فائرنگ کرنے والوں کو ڈھڈے مارکر باہر نکال دو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ دوسرے دن حاکم علی زرداری کا دھاڑتے ہوئے فون آیا تم نے میرے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک کرنے کی جرأت کیسے کی؟ میں نے جواب دیا اگر تمھیں عزت کا خیال ہوتا تو آصف علی زرداری کو بندوق لیے ہوٹل میں نہ بھیجتے۔آصف علی زرداری کی میرے ساتھ اس واقعے کی وجہ سے پرخاش رہی۔ لکھتے ہیں جب بینظیر اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری میرے پیچھے پڑ گیا کہ ضیا الحق نے میری مدد کی ہو گی۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ ایک دھائی پہلے مجھے ضیا الحق نے ظلم کا نشانا بنایا تھا کہا گیا تھا کہ میں نے بھٹو سے معاونت حاصل کی۔ لکھتے ہیں بینظیر کے دور میں آصف علی زرداری نے اغوا پھر کاغذات پر ذبردستی دستخظ کروا کے جائیداد لے لینے اور پھر مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ منصوبہ مجھے میر ے دوست کور کمانڈر جنرل آصف نواز نے بتایا تھا اور مجھے فوجیوں کی حفاظت میں ایئر پورٹ پہنچایا گیا اور میں بیرون ملک چلا گیا۔١٩٩٣ء میں جنرل آصف نوا زکو جاگنگ کرتے ہوئے دل کا دورا پڑا۔ و ہ وفات پا گئے ۔ان کے بال فرانزک معائنے کے لیے بھجوائے گئے تو ان میں انتہائی مہلک زہر پایاگیا۔ نوازشریف کی حکومت کے بعد بینظیر دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ بینظیر نے مجھے معاشی مشیر بننے کا کہا مگر میں نے انکار کر دیا۔ زرداری بے تاج بادشاہ بن گیا۔مسڑ ٹین پرسنٹ مشہور ہوا۔آبدوز سکینڈل میں گرفتار ہوا۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں مجھے پھر ایکزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر لیا الزام تھا کہ میں نے پی پی دور میں مراعات حاصل کیں ہیں ۔ جنرل کرامت نے میری مدد کرنی چاہی مگر میں نے حالات کا مقابلہ کیا اور بلا آخر مجھے نجات ملی۔ لکھتے ہیں نواز شریف کے بعد ڈکٹیٹر مشرف کا دور آیا۔مشرف امریکا کا ساتھ نہ دیتا تو پاکستان موجودہ مصیبت میں کبھی مبتلانہ ہوتا۔ میں اس کے احمقانہ فیصلے پر مشرف کو کبھی معاف نہ کروں گا۔ بینظیر ایک معاہدے کے تحت پاکستان واپس آئی ۔ مشرف دور میں اسے ایک سازش کے تحت قتل کر دیا گیا اور قتل طالبان کے سر ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد پی پی پھر اقتدار میں آگئی اور٢٠٠٨ء زرداری مغرب کی حمایت سے پاکستان کے صدر بن بیٹھے۔ اہم جرنیلوں کی مدت ملازمت میں توسیع کر کے ان کے دل جیت لئے۔١٩٩٠ء اور٢٠٠٨ء کے زرداری میں اتنا فرق ہوا کہ مسٹر ٹین پرسنٹ سے مسٹر نائٹی بن گیا۔٢٠٠٨ء اور ٢٠٠٩ء میں میری جان لینے کی پانچ کوششیں کی گئیں۔ اسلام آباد میں میرے گھر میں آگ لگا دی گئی۔
میرے دفتر میں آتشزدگی ہوئی۔ ٢٠٠٩ء میرے ہوٹل میںپرل کانٹی نینٹل ہوٹل پشاور میں دھماکہ ہوا۔لکھتے ہیں ٢٠ ستمبر ٢٠٠٨ء کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر خود کش حملہ ہوا جبکہ اسی دن میں نے فیملی کے ساتھ رات کا کھانا میریٹ میں کھانا تھا۔ حملے کے بعد مجھے ایک سینئر سرکاری افسر کی فون کال موصول ہوئی۔ نقصان پر بات کرنے کے بجائے مجھے کہا گیا کہ میں میڈیا کو بتائوں کہ صدر زرداری اس دھماکے کا متوقع نشانہ تھا۔میں نے کہا میںجھوٹ نہیں بول سکتا۔ میں جاری تفتیش کا محتاط جائزہ لیتا رہا۔ٹرک کے آگے آگے جو کار تھی اور جس کا نمبر تک نوٹ کر لیا گیا تھا جو ٹرک کو گیٹ تک پہنچا کر دوسری طرف مڑ گئی تھی آج تک ٹریس نہ ہو سکی۔ ٹرک کے دھماکوں اور چوتھی اور پانچویں منزلو ں پر کیمیائی آگ کے درمیان کوئی مطابقت نہ تھی۔ یہ ایک راز ہے کہ سیکورٹی زون میں ہزار کلو سے زائد مواد سے بھرا ٹرک پہلے پارلیمنٹ، جس میں وزیر اعظم چار سو افراد کے اعزاز میں افطار ڈنر دے رہے تھے کیسے گذر گیا۔ اس کار کا کیا قصہ ہے جس نے اس ٹرک کی رہنمائی کی تھی۔ اسی تباہ شدہ میریٹ ہوٹل کی تعمیر کے دوران تین بار مجھ پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔ میں ہر دفعہ پولیس کی بروقت اطلاع سے بچ گیا۔ مجھے ایک انٹیلی جینس کے دوست نے گھر آکربتایا ،ہاشوانی صاحب اس حملے کے آپ ہدف تھے۔ یہ ایک سیاسی چال ہے۔ اس میں طالبان کا کوئی داخل نہیں۔ بس آپ محتاط رہیں۔ اس دوران رحمان ملک نے مجھے گھر بلایا میں نے اسے کہا یہ سب کچھ کیا ہے ؟وہ بولا یہ بیت اللہ مسحود کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ میں حیران تھا صرف پانچ گھنٹے میں رحمان ملک کو یہ کیسے معلوم ہو گیا۔میں نے خیال دوڑایا ۔مجھے زرداری کے صدر بننے کے بعد اغوا کی دھمکیوں اور ١٩٩٠ء کی داہائی کے واقعات، بشیر قریشی کی کاروائی یاد آ گئیں۔ پاکستان میں اپنی جان کو درپیش خطر سے محفوظ رہنے کے لیے میں٢٠٠٨ء دبئی چلا گیا پانچ سال تک وہیں سے اپنا کاروبا ر چلاتا رہا۔ ٢٠١٠ء میںمجھ سے دبئی میں ایک سابق امریکی سفارت کار نے ملاقات میں مجھ سے پوچھا کیا بات ہے کہ پاکستان کے اکثر لوگ بیرون ملک دبئی، لندن اور سنگا پور میں سرمایا کاری کر رہے ہیں۔بینکوں میں کھاتے کھول رہے ہیں بچوں کو بیرون ملک بھیج رہے ہیں۔ میں نے فوراً کہا زرداری سے پوچھو جس کو آپ نے پاکستان بچانے کے لیے لگایا ہوا ہے۔ لکھتے ہیں اب میں ١٤ جون کو واپس پاکستان آگیا ہوں۔
برسوں بعد پہلی دفعہ اسلا م آباد اپنے بستر پر سویا ہوں۔ میں نے شریف برادران سے ملاقات کی ۔ پاکستان کو ترقی کی راہ پر لگانے کے لیے نواز شریف کو مشرف اور زرداری دور کے نقصانات کا ازالہ کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی خاطر انہیں ہر حال میں کامیاب ہونا چاہیے۔ یہ ہے ایک زیرو سے ہیرو بننے والے کامیاب صنعت کار صدرالدین ہاشوانی کی داستان جس کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں جس پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ جس کے اثاثوں اور کاروبار کو بار بار چیک اور جانچ پڑتال کی گئی مگر ملکی قوانین کے خلاف کچھ نہ ملا۔ اس نے اللہ پربھروصہ کرتے ہوئے ہر ظلم کا مقابلہ کیا۔ اب بھی پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کی داستان میں عام پاکستانیوں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے والی نوجوانون نسل کے لیے سبق ہے۔
تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)
mirafsaraman@gmail.co