یکم دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایڈز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987 میں منایا گیا ۔اس کے مقاصد میں عوام الناس کو اس مہلک مرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا شامل ہے ۔ایڈ ز ہے کیا؟اس کی علامات کیا ہیں؟اسباب اور علاج کے بارے میں اور سب سے اہم اس کی وجوہات بارے لوگوں میں شعور و آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس دن کی مناسبت سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کالم اور پروگرام کیے جاتے ہیں ۔ایڈز ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جسے ایچ آئی وی کہتے ہیں
جس میں یہ وائرس ہو اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے یعنی بیماریوں کے خلاف جو قوت ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے اب کوئی معمولی بیماری بھی حملہ کرے تو انسان میں قوت مدافعت نہ ہونے کے سبب اس کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔اس مرض کا سب سے اہم سبب انفیکشن ہے ۔ایڈز کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ہے اس بات میں کافی سچائی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تازہ ترین تحقیقات میں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے جن کا ذکر آگے کریں گے ۔ ایڈز کی علامات عام سی ہی ہیں مثلا مسلسل بخار کا رہنا ،جوڑوں کا درد ،گلے میں سوجن اور نزلہ زکام کا ہونا وغیرہ۔
اس کے ساتھ کچھ وجوہات ہیں مثلا ہسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ،فرسٹ کزن میرج،اس مرض میں مبتلا مریض کا خون لگانا ،منشیات کے لیے سرنجوں کا استعمال کرنا جو بار بار استعمال ہوتی ہیں ،ایڈز میں مبتلا ماں کا دودھ،کان ،ناک چھدوانے کے لیے جو اوزار استعمال ہوتے ہیں ان کی مناسب صفائی نہ ہونا اور دانتوں کی صفائی کے دانتوں کے ڈاکٹر جو اوزار وغیرہ استعمال کرتے ہیں ان کا مناسب صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا اورجنسی بے راہ روی وغیرہ اس بیماری سے بچائو کی احتیاطی تدابیر سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے یہ کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے ہی یہ مرض لگتا ہے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے تا حال اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا اس کے اس کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے
اس لیے بھی کہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیں مثلا صفائی جسے اسلام میں نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اور جن اوزار وغیرہ سے دانت ،ناخن صاف کیے جائیں ان کا صاف ہونا ۔ایک مرد کے اپنی بیوی سے ہٹ کر زیادہ عورتوں سے تعلقات خاص کر پیشہ ور عورت سے تعلقات رکھنا اسی طرح عورتوں کو یہ مرض مردوں سے منتقل ہوتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق 80 فیصد لوگ جنسی بے راہ رو ی کے باعث اس مرض کا شکار ہوتے ہیں ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایڈز کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے جو کسی مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی اس لیے جو اس کے مریض ہوں ان سے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے اس سے نفرت کا نہیں بات احتیاطی تدابیر کی ہو رہی تھی تو کسی کا بھی خون لگواتے وقت اس کے خون کے مکمل ٹیسٹ کروا لینے چاہیے۔
پاکستان کو عالمی ادراہ صحت نے ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کر لیا ہے اب تک پاکستان میں تقریبا 8 ہزار مریض اس مرض میں مبتلا رجسٹرڈہوئے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا امکان ہے پاکستان میں لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھر والوں سے اس مرض کو چھپاتے ہیں اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں پھر پاکستان میں جہاں مردم شماری نہ ہوئی ہوں وہاں کسی قسم کے اعداد و شمار کا درست حالت میں ملنا ممکن نہیں ہے جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں میڈیکل چیک اپ کا تصور کہاں ،خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے یا وہ جن کی زندگی قرض اور خیرات پر گزر رہی ہو وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو ٹیسٹ کہاں کرواتے ہیں
کروا بھی کیسے سکتے ہیں چپ چاپ قبر میں جا اترتے ہیں اور اپنے پیچھے اسی مرض کے اور مریض چھوڑ جاتے ہیں ۔ایڈز کا مرض غربت کا شکار معاشروں کے ایک ناسور بنا ہوا ہے کیونکہ وہاں اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ مریض کس مرض سے مرا ہے ۔ ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ پاکستان میں ایڈز کے ایک لاکھ سے زائد مریض ہو سکتے ہیں اور صرف 15 مراکز ہیں جہاں اس کا ٹیسٹ مفت ہو رہا ہے ۔پوری دنیا میں ایک اندازے کے مطابق ساڑھے تین کروڑ افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں جن میں سے 20 لاکھ ہر سال مر جاتے ہیں ۔اب آخر میں بات ہو جائے اس مرض کے علاج کی اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ نے ایسا کوئی مرض پیدا نہیں کیا جس کا علاج پیدا نہ کیا ہو ۔روانڈا ایک ایسا ملک جہاں 90 فیصد آبادی کیتھولک ہے وہاں کی تین فیصد آبادی ایڈز کا شکار ہے۔
اسی طرح بوٹسوانا کی 23 فیصد آبادی اس مرض کی شکار ہے ۔وہاں اس مرض کا علاج یا دفاع کے لیے اسلامی طریقہ کے مطابق مردوں کے ختنے کر کے کیا جا رہا ہے اور ماہرین نے کہا ہے کہ ختنے والے مردوں میں اس بیماری کے انفیکشن کا خطرہ 60 فیصد کم ہوتا ہے ۔ اس پر تحقیق ابھی جاری ہے ۔یہ ابتدائی تحقیقات ہیں ۔اسی طرح اسلام میں مردوں کو صرف اپنی بیوی یا بیویوں تک اور بیوی کو اپنے شوہر تک محدود رہنے کی بابت بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس مرض سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ ہے ۔سائنسدان دن رات اس مرض کے علاج کے لیے کوشاں ہیں اور وہ بہت پر امید ہیں طبی ما ہرین نے ایک ایڈز کے کامیاب علاج کے دوا کی دریافت کا بھی عندیہ دیتے ہوئے خوش امیدی ظاہر کی ہے لیکن اس پر ابھی مزید تحقیق ہو رہی ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال