تحریر : ایم پی خان
ہم سب اردو بولتے ہیں ،اردو میں خبریں سنتے ہیں، اردو ڈرامے دیکھتے ہیں ، اردوشعرو شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں ،علمائے کرام کے ایمان افروزبیانات سے دینی سمجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں ، لیکن اس دوران روزانہ ایسے بے شمارالفاظ، تراکیب ، محاورات اورضرب الامثال ہماری قوت سماعت سے گزرتے ہیں جویاتومکمل طورپرغلط ہوتے ہیں، یابے موقع اوربے محل ہوتے ہیں یاکم ازکم غیرفصیح تو ہوتے ہی ہیں۔ دوران سماعت ایسی غلطیوں کابہت کم احساس ہوتاہے اورلوگ صرف اپنامطلب سمجھنے اورسمجھانے پرہی اکتفاکرتے ہیں ۔لیکن جب کلام صفحہ قرطاس کی زینت بنتاہے توایسی غلطیاں بہت واضح ہوجاتی ہیں۔ایک اچھے سے اچھالکھاری جب اپنی تحریرمیں ایسی غلطیوں کامرتکب ہوجاتاہے تواردوزبان اوراسکے قواعدسمجھنے والے قارئین کو ایسی غلطیاں ناگوارگزرتی ہیں اورکلام میں انکی دلچسپی کم ہوجاتی ہے ۔ ایسی غلطیوں کے باربارارتکاب سے لکھاری کی کم علمی کاشائبہ ہوتاہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں اوردیگرذرائع میں اکثردیکھاجاتاہے کہ بہت پڑھے لکھے لوگ ”السلام علیکم ” کو غلط لکھتے ہیں۔ اسکی کئی صورتیں میں نے دیکھی ہیں، جیسے کہ ”اسلام علیکم، السلام وعلیکم،اوراسکے جواب میں بعض لوگ اس طرح لکھتے ہیں۔”وعلیکم سلام، وعلیکم والسلام” جوکہ غلط ہے۔درست املا یوںہے۔
” السلام ُ علیکم اور وعلیکم ُ السلام” ۔ اس طرح بعض لوگ ”ہامی بھرنا ”کی جگہ ”حامی بھرنا”لکھتے ہیں۔ حامی کامطلب ہے حمایت کرنے والا اورہامی کامطلب ہے اقرار، اثبات وغیرہ۔ لہذا صحیح لفظ ”ہامی بھرنا” ہے۔ ایک نجی تعلیمی ادارے کے منتظم اعلیٰ نے اپنے ایک خط میں ”الحمدللہ ” کی جگہ ”الحمداللہ ” لکھاتھا۔ میں نے ان سے رابطہ کیاکہ یہ صریح غلطی ہے،جس پروہ صاحب برہم ہوئے اورہمیں مجبوراًمعذرت کرناپڑی۔اسکے بعدمیں نے کئی اخبارات اوررسائل میں خصوصاًنجی تعلیمی اداروں کے اشتہارات میں یہ صریح غلطی بارباردیکھی۔لہذا صحیح املا ”الحمدللہ ” ہے۔لفظ ”پروا” کی جگہ ”پرواہ” اور” بے پروائی” کی جگہ ”لاپرواہی یالاپروائی” لکھنابھی غلط ہے۔تلفظ کے ضمن میں لفظ ”مُجاز” ، جوہمارے دفاتروغیرہ میں کثرت سے استعمال ہوتاہے، اکثرلوگ ”مجاز” م پر زبرکے ساتھ بولتے ہیں، جوحقیقت کے الٹ کے لئے استعمال ہوتاہے۔ لہذا درست تلفظ میم پر پیش یعنی مُجاز، جس کو اجازت دی گئی ہو، ہے۔
دُکان کی جگہ اکثرلوگ غلطی سے دوکان لکھتے ہیں۔ مختلف اشتہارات میں اکثرلفظ ”بجگانہ ب ج گ ا ن ہ ” لکھاہواہوتاہے، جوکہ غلط ہے ۔درست لفظ ”بچکانہ یعنی ب چ ک ان ہ” ہے۔بدامنی کے لئے لفظ ”نقض امن ”استعمال ہوتاہے، جسے اکثر”نقص امن ” لکھاجاتاہے۔ اسی طرح لفظ ”بدامنی” جوکہ بہت زیادہ استعمال ہوتاہے۔ اساتذہ اردوکے نزدیک یہ غلط ہے۔ اسکی جگہ درست لفظ بے امنی ہے۔کیونکہ امن ایک ایسی چیز ہے جواگرموجودہوتو امن ہوگااوراگرموجودنہ ہوتوپھربے امنی ہوگی۔ میرے اکثردوست کہتے ہیں” کسی بات کابرامنانا”۔جوکہ غلط ہے۔اسکی صحیح صورت ” براماننا” ہوگی۔اکثردوست ” آئے روز ” اور”دن بہ دن ” لکھتے اورپڑھتے ہیں۔
لہذااس ضمن میں خیال رکھناچاہئے کہ صحیح الفاظ ” آئے دن اور روزبروز” ہیں۔ اردوکے ایک معروف پروفیسر صاحب ،جنہوں نے ماسٹرلیول کی کتاب کے پہلے صفحے پر ایک جگہ یہ ترکیب لکھی تھی۔ برس ہا برس۔ حالانکہ برس ہندی لفظ ہے اور”ہا ”کی ترکیب فارسی ہے ۔ لہذادرست ترکیب ” سال ہا سال” بنتی ہے کیونکہ سال فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ لفظ” مشکور”کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہوتی ہے اور ہنوزکوئی حتمی نتیجہ برآمدنہیں ہواہے ، تاہم اکثراساتذہ کہتے ہیں کہ لفظ مشکور کامعنی ہے،جسکاشکریہ اداکیاجائے کیونکہ یہ لفظ مفعول کے وزن پرہے۔ جبکہ شکریہ اداکرنے والا شاکرہوتاہے۔اسکی جگہ لفظ ممنون درست یعنی کسی کااحسان مندہونا۔بعض تحریروں میں نکتہ چینی کی جگہ نقطہ چینی لکھاجاتاہے، حالانکہ” نقطہ چینی” غلط لفظ ہے ۔لفظ تابعدار غلط ہے ، درست الفاظ تابع یافرمان بردارہے،کیونکہ تابع کامعنی ہے حکم ماننے والا ، مزید اسکے ساتھ دارکالاحقہ لگاناحشووزائدکے زمرے میں آتاہے۔ بعض الفاظ جیسے موقع ، مرقع، مزرع،موضع،مصرع اوربرقع وغیرہ کے آخرمیں ہ لگانے سے یہ الفاظ موقعہ،مزرعہ،موضعہ، مصرعہ اوربرقعہ بن جاتے ہیں جوکہ غلط ہیں۔
ایک اورلفظ ”مکتب فکر” ہے، جسکو اکثرغلطی سے مکتبہ فکربولا اورلکھاجاتاہے۔ جامع مسجد درست لفظ ہے، جامعہ مسجد لکھنا اوربولناغلط ہے۔اس طرح بعض دفعہ لوگ حشووزائدیعنی غیرضروری، فالتو اورزائدالفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ماہ رمضان کامہینہ ، سنگ مرمرکاپتھر، آب حیات کاپانی، آب زم زم کاپانی،کوہ ہمالیہ کاپہاڑ، ڈرائنگ روم کاکمرہ وغیرہ وغیرہ ۔ لہذا کلام میں ایسے زائداورفالتوالفاظ سے حتیٰ الوسع گریزکرنی چاہئے۔عربی الفاظ کے آخرمیں ہمزہ ہوتاہے ۔مثلاً ابتدائ، اخفائ، املائ، فقرائ، شعرائ، علماء ، انبیائ،بنائ، ضیائ، حکمائ،وغیرہ تواردومیں لکھتے ہوئے ان الفاظ کے آخرمیں ہمزہ لگانادرست نہیں۔ لہذا ان الفاظ کی صحیح صورت یوں ہوگی۔ ابتدا، اخفا، املا، فقرا، شعرا، علما ، انبیا،بنا، ضیا، حکما۔ ”استفادہ کرنا” کی جگہ” استفادہ حاصل کرنا”غلط ہے البتہ فائدہ حاصل کرنادرست ہے۔قدم اٹھانا اوراقدام کرنادرست الفاظ ہیں۔ بعض لوگ ”اقدام اٹھانا” کہتے ہیں، جوسراسرغلط ہے۔
اسی طرح بے شمارالفاظ، محاورات، تراکیب، ضرب الامثال اورروزمرے ، جوغلط استعمال ہوتے ہیں ، کی ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ میں چونکہ اردوادب کاطالب علم ہوں اورابھی سیکھنے کے مراحل سے گزررہاہوں۔ میں گذشتہ ایک عرصہ سے اردوادب میں خصوصاً املااورتلفظ پر تحقیق کرتا چلاآرہاہوں ۔ سن تمیز سے ہی اردوادب سے شغف رہاہے اوربحمداللہ والد محترم سے فارسی اورعربی کی کافی کتب پڑھی ہیں۔اردو املا، تلفظ اوردرست تحریرکے لئے ضروری ہے کہ تھوڑابہت عربی اورفارسی کاعلم حاصل کیاجائے اورساتھ عربی اورفارسی قواعدکابھی ادراک ہو۔ اپنی اردوکو مزید خوبصورت اور غلطیوں سے پاک بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان غلطیوں سے حتیٰ الوسع کنارہ کشی کی جائے۔اس مقصدکے لئے ان کتب کامطالعہ بہت ضروری ہے۔ اصلاح تلفظ واملا(طالب الہاشمی )، اردواملا(رشیدحسن خان) ، املانامہ (ڈاکٹرگوپی چندنارنگ)، صحت املاکے اصول (ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی)اور اردواملا اوررسم الخط (ڈاکٹرفرمان فتح پوری)۔
تحریر : ایم پی خان