تحریر : شاہ بانو میر
جھوٹ گمراہی ذلت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو از سر نو تعمیرکرنا اتنا سہل کام نہ تھا لیکن اس کائنات کو آغاز سے انجام تک پہنچانے والی ہستی نے کائنات کو بنانے سے قبل ہی سب کچھ طے شدہ وقت پر مقرر کر رکھا تھا جس میں کسی کی پس و پیش نہیں چل سکتی بڑے بڑے نامی گرامی لوگ آئے اپنا وقت گزارہ اور مقررہ مدت پے اللہ کے پاس واپس چلے گئے . بہت غور کرنے والی بات اور فکر والی بات یہ ہے کہ اس کائنات میں ہمارا کیا کردار اللہ نے طے کیا ہے۔
بہت پیار آتا ہے اپنے پاک پروردگار پر جب وہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ وہ جسے اپنے کام کیلیے چن لیں اس کو خود راہ ہدایت دکھا دیتے ہیں . اور جسے نہ چننا چاہیں ان کو جہنم کا ایندھن بنا دیں گے . غور کیجیے اپنے طرز عمل پر کیا آپ وہی اللہ کے بندے ہیں جو مومن کے عنوان سے پکارے جاتے ہیں؟ جن پر اللہ پاک کی بے شمار مہربانیاں اور رحمتیں نازل ہونی ہیں۔
آخرت میں اللہ پاک بندہ مومن کی خاص خوبی یہ بیان کرتے ہیں کہ دین کا کام اخلاص سے کرنے والا ہے کسی لالچ سے خریدا نہیں جا سکتا . حق بات کہتا ہے اور آپ کے بعد کیونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لئے اللہ کےا یسے ہی خاص بندے ہوں گے جو لوگوں کا اعتبار بنیں گے منافق کیلئے فرما دیا گیا کہ معیار ہیں 1 جب وہ وعدہ کرے تو پورا نہ کرے یعنی عہد شکنی ہے اس میں جبکہ مومن کیلئے بنیادی تربیت ہی ایفائے عہد کی پاسداری ہے۔
2 بندہ مومن اپنے پیارے آقا محمد کی سنت پے عمل پیرا ہوتا ہے اور امانت کی قدر و قیمت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے امانت میں خیانت نہیں کرتا . جبکہ اس کے برعکس منافق کے پا س کسی کی امانت ہو وہ اس میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے 3 مومن ہمیشہ سچ بولتا ہے جسے آپ نے بھی کہا کہ مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا خواہ کچھ بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا منافق ہمیشہ بات میں ردو بدل کرتا ہے اللہ کی خشعیت سے عاری ہوتا ہے اس لئے نہیں جانتا کہ جھوٹ بولنے پر وہ کس قسم کے عذاب کا مستحق کیا جائے گا مومن ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتا ہے مگر جان چلی جائے وہ جھوٹ نہیں بولتا۔
4 مومن قرآن پاک کی تربیت اور احکامات کو اللہ پاک کے جلالی انداز بیاں کو پڑھ کر کانپ جاتا ہے اور خود قرآن پاک میں ہے کہ بندہ مومن وہ ہے جس کا دل ان آیات کو پڑھتے ہوئے خوف خدا سے کانپ جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن پاک کی سچائی اور اس کے اندر درج عزابوں کو پڑھ کر تاریخی حقائق پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنی جلد باز طبیعت کو ٹھہراو میں تبدیل کرتا ہے اپنے غصے کو ٹھنڈا کر کے حکمت عملی سے بہترین انداز میں منفی رد عمل کو اور مخالفانہ رد عمل کو قرآن پاک کی تعلیم سے مفاہمانہ اندازدیتا ہے وہ گالی گلوچ نہیں کرتا۔
بلکہ ایسے مواقع پر خاموش رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے مگر زبان سے کبھی غلاظت نہیں کہتا کیونکہ زبان سے نکلے ہوئے غلیظ الفاظ قبر میں زہریلے جانداروں کی صورت برآمد ہو کر انسان کو کاٹ کر اس کے کہے ہوئے الفاظ کو دہرائیں گے . منافق کی قبر گالیوں کی کثرت سے شائد ایسے زہریلے جانداروں سے بھری ہو۔
اللہ پاک نے انسان کو تخلیق کیا کہ وہ احسانمند ہو دن اور رات شعور کے ساتھ خود سوچ بچار کرے زمین دیکھے آسمان دیکھے اپنے گرد و نواح میں موجود انواع و اقسام کی نعمتوں کو دیکھے سوتے سے جاگ کر اس عارضی موت جسے نیند کہتے ہیں اس سے پھر سے جاگ اٹھنے پر آنکھ کھلتے ہی خالق حقیقی کا دل سے شکر بجا لائے اس کی حمد و ثنا کرتے ہوئے دن کا خوبصورت آغاز کرے اور سارا دن بغیر کوئی قیمت ادا کئے اس کے انعام و اکرامات پر سجدہ شکر بجا لائے۔
دوسروں کیلئے فائدہ مند انسان بنے ہدایت کا پیغام حتی المقدور دوسروں تک پہنا کر اپنا فریضہ مسلمانی ادا کرے . یہی راستہ ہے فلاح کا نجات کا دین کو دوکانداری بنا کر جگہ جگہ اس کا ٹھیلا لگا کر مصلحتوں مفادات میں ملفوف جزبات کو ارزاں نرخوں پرفروخت نہ کریں . قیمتی اثاثہ سمجھیں اسلام کے اس تحفے کو اور اسے خوب سوچ و بچار غورو خوض جے بعد بیان کیا کریں۔
چھینا جھپٹی سیاسی گروہی جماعتی لسانی صوبائی اختلافات کی بھینٹ اس پیارے دین کو مت کیجئے اس کو ہمیشہ بیان کریں تو اخلاص کے ساتھ جس سے خود بھی سیکھیں اور دوسروں کو بھی اپنے اعلیٰ حسن خلق سے سکھانے کا موجب بنئے کہ رحمتوں کا بے پناہ نزول ہو آپ پر اور اسلام پھیلانے بڑھانے کا باعث بنیں ہمیں مومن کی صفات پیدا کرنی ہیں اور سچا کھرا بے لاگ مومن بننا ہے اسلام کے عروج کیلئے جس کو دیکھ کر اسلام سے دور لوگ بھی قریب آجائیں . ایسا ممکن ہے جب ہم خود کو اسلامی تعلیمات سے خالص کر لیں اور ہمیں خالص ہونا ہے کیونکہ یہی بندہ مومن کی میراث ہے یہی پہچان ہے۔
تحریر : شاہ بانو میر