سندھ ہائیکورٹ نےسو سے زائد لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پرحکومت سندھ اور صوبائی ٹاسک فورس کی رپورٹس کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ صوبائی ٹاسک فورس کی رپورٹس عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ کے روبرو صوبائی ٹاسک فورس کی رپورٹ پیش کی گئی ۔رپورٹ کے مطابق افراد کی بازیابی کے لیے ماڈل ٹیکنیکس استعمال کی جارہی ہیں۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کئی شہری پانچ پانچ سال سے لاپتہ ہیں ان کی بازیابی کے لیے کونسی ٹیکنیکس استعمال کی جارہی ہیں۔صوبائی ٹاسک فورس کی رپورٹس عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ لاپتہ افراد کی گمشدگی کے مقدمات بھی نااہل پولیس افسران کی وجہ سے اے کلاس کردئیے جاتے ہیں۔عدالت کا کہنا تھا کہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے اہل تفتیشی افسران تعینات کیے جائیں۔عدالت نے 9فروری تک فریقین سے تفصیلی جواب مانگ لیا۔لاپتاشہری کی والدہ کا کہنا تھا کہ محمد فیصل اورنگی ٹاؤن سے لاپتا ہواجبکہ عارف حسین سمیت 3شہری دوہزار تیرہ سے لاپتہ ہیں۔عدالت نے وجاہت علی، جاوید سمیت اٹھارہ لاپتا افراد کی بازیابی کی نئی درخواستوں پر فریقین کونوٹس جاری کردئیے۔ عدالت نے ڈی جی رینجرز،آئی جی سندھ،محکمہ داخلہ اور دیگر سے دوہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔