سرخ سیاست، کتاب زیست کے چند کٹے پھٹے اوراق ، معمر دانشور عبدالرؤف کی تخلیق ہے۔ وہ نوجوانی میں ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے۔ سات دہائیوں کی جدوجہد اور تاریخ کو انھوں نے اس کتاب کی زینت بنایا ۔کتاب میں نادر تصاویر شامل ہیں۔ سرخ سیاست میں کمیونسٹ تحریک کے روشن چراغوں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر، سید مطلبی فریدآبادی کے علاوہ سعادت حسن منٹو، عبدالصمد خان اچکزئی، پروفیسر حمید احمد خان، امرتا پریتم، ظفر اﷲ پوشنی، پروفیسر ڈاکٹرافضل، ڈاکٹرایوب مرزا اور محبوب خان کی شخصیتوں کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔
رؤف ملک اپنے بڑے بھائی ترقی پسند صحافی عبداﷲ ملک اور اپنے والدکے دوست کمیونسٹ رہنما فضل الٰہی قربان کے سائے میں پلے بڑھے۔ انھوں نے بطور طالب علم ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے فیصلوں کے تحت تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد پیپلزپبلشر ہاؤس کی ذمے داری سنبھالی۔ انھیں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا ہیڈ کوارٹر 114 میکلوروڈ ہنوز بھی یاد ہے جو کبھی پنجابی کمیونسٹوں کا ہیڈ کوارٹر بھی ہوتا تھا۔
اس کتاب میں متحدہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کی کہانی بھی ہے اور پاکستان میں کمیونسٹوں کی جدوجہد بھی۔ رؤف ملک اپنے خاندانی پس منظر میں لکھتے ہیں کہ وہ یکم اکتوبر 1926کو اپنے آبائی مکان کوچہ چکسواراں میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کے تھے کہ والد محمد عمر کا انتقال ہوگیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم 5 بہن بھائی تھے مگر ان میں عبداﷲ اور میں ہی حیات رہے۔ عبدالرؤف ملک لکھتے ہیں کہ یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ راقم اسکول کی تعلیم ختم کر کے کالج میں داخل ہوا تو اپنے بڑے بھائی عبداﷲ ملک اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوا۔ احرار اور کانگریس سے جذباتی وابستگی اور جماعتوں کی سیاست میں کسی حد تک حصہ لینے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے۔
کمیونسٹ پارٹی کی ایماء پر پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی جب کہ دیگر پارٹی ممبران مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جن میں دانیال لطیفی، عطاء اﷲ اور عبداﷲ ملک قابل ذکر تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یونینسٹ پارٹی کی مقبولیت کی ایک وجہ سر چھوٹو رام بھی تھے جنہوں نے پنجاب میں ساہوکاروں کے خلاف قانون اراضی ہند 1901میں تین ترامیم کرائی تھیں جس سے پنجابی کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کو بہت فائدہ ہوا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی پنجاب کے دیہاتوں میں چھوٹو رام کی آج بھی عزت کی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن ریڈیو سننے کی ممانعت تھی۔
بہت سے سیاسی کارکن ہمارے گھر میں اکٹھے ہو کر جرمن ریڈیو سنتے تھے۔ ان دنوں میں بہت سے لوگوں نے کھدر پہننی شروع کردی تھی۔ کھدر پہننا بھی انگریز مخالفت کی نشانی بن چکی تھی۔ عبدالرؤف ملک تحریک پاکستان اور کمیونسٹ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلہ لیا۔ یہاں شیخ رفیق سے ملاقات ہوئی۔ شیخ رفیق بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بنے۔ ملک لکھتے ہیں کہ1942 میں میٹرک کے بعد عبداﷲ اور فضل الٰہی قربان کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کے ہمدردوں میں شمار ہونے لگا تھا۔ یہی وہ سال تھا جب پارٹی کوکھلے عام کام کرنے کی اجازت ملی تھی۔
عبدالرؤف ملک لکھتے ہیں کہ اپریل 1942 میں آل انڈیا کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے 15 ممبران نے کمیٹی کے اجلاس منعقدہ الہٰ آباد میں ایک قرارداد پیش کی کہ کانگریس کی قیادت مسلم لیگ کا مطالبہ تسلیم کرے اور مسلم لیگ کو ساتھ ملا کر انگریز تسلط کے خلاف جدوجہد کی جائے۔ ان اراکین کی قیادت راج گوپال اچاریہ کررہے تھے۔ کانگریس پنجاب کے صدر میاں افتخار الدین ان ممبران میں شامل تھے۔
کانگریس میں ایسے لوگ موجود تھے جو قرارداد لاہور کو قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔ وہ پاکستان میں کمیونسٹ مخالف کا آغاز کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ 3 جون 1947 سے وسط اگست 1947 کے درمیان مذہبی بنیادوں پر تبادلہ آبادی کے خلاف تھی اور اسے پورے خطہ کے لیے زہرِ قاتل سمجھتی تھی، تاہم انگریز سرکاری کے ساتھ مسلم لیگ اور کانگریس میں موجود دائیں بازو کے مذہبی رجحان کے رہنما مذہبی بنیادوں پر اس کو ضروری سمجھتے تھے۔
زیڈ اے احمد، پرکشن سنگھ، سرجیت، سی آر اسلم اور سوبھوگیان چندانی سمیت لاتعداد کمیونسٹوں نے اس دور میں مذہبی بنیادوں پر تبادلہ آبادی کے طوفان کو روکنے کے حوالے سے واقعات رقم کیے۔ 1947 کے فسادات میں انگریز انتظامیہ انتہائی ہوشیاری سے لاتعلق رہی۔ پاکستان میں کمیونسٹوں نے ہندوؤں اور سکھوں کو تحفظ دیا تو ان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع ہوگیا کہ کمیونسٹ بھارت کے ایجنٹ اور پاکستان مخالف ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ کرنیوالے یہ بھول گئے کہ 1946کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ کی کامیابی میں کمیونسٹوں کا کتنا کردار تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پنجاب کے کمیونسٹوں نے کشمیری رہنما شیخ عبداﷲ کی لاہور میں قائد اعظم سے ملاقات کرانے کی کوشش کی مگر لیاقت علی خان اور ان کے حواریوں نے یہ کوشش ناکام بنادی ۔
مصنف کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے 6 ماہ بعد کئی کمیونسٹ مخالف گروہوں نے آئین سازی کے سلسلے میں قرارداد مقاصد کو منظور کرایا۔ زیرک میاں افتخار الدین اس چال کو بھانپ گئے اور انھوں نے انتباہ کیا کہ حکمراں ٹولہ پاکستان میں اسلام اور غیر اسلام کی جنگ چھیڑ کر عوام کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا رہا ہے۔ ملک صاحب میاں افتخار الدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میاں افتخارالدین نے 1936 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ قصورکے مسلم حلقے سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1937 کے انتخابات کے بعد انھیں پنجاب اسمبلی کانگریس کا سیکریٹری بنا دیا گیا۔
1938میں کانگریس کے اندر بننے والی سوشلسٹ کانگریسی پارٹی کے اراکین بھی شامل تھے۔ میاں افتخار نے 1946 میں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کی بنیاد رکھی اور پاکستان ٹائمزکا اجراء کیا۔ اس کام میں میاں صاحب کو قائد اعظم کی سرپرستی حاصل تھی۔اس ادارے نے 1948 میں امروز اور 1957 میں ہفت روزہ لیل و نہار جاری رکھا۔ قائد اعظم نے میاں صاحب کو پنجاب کا وزیر مہاجرین مقررکیا۔ میاں صاحب مہاجرین کے مسئلے کو فہم و فراست سے حل کرنا چاہتے تھے مگر مایوس ہو کر وزارت سے اکتوبر 1947 میں استعفیٰ دیا۔
میاں افتخار الدین نے 1950 میں مسلم لیگ کو خیرباد کہا اور آزاد پاکستان پارٹی قائم کی۔ میاں محمود علی قصوری اور شیخ رشید سمیت بہت سے ترقی پسند اس جماعت میں شامل تھے ۔ پاکستان میں امریکا کی مداخلت اور حکومت میں فوج کے عمل دخل کو جن لوگوں نے 1953 میں بھانپ لیا تھا ان میں نمایاں قریبی سیاستدان میاں افتخار الدین تھے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے اپریل 1958 میں پی پی ایل کے اخبارات پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل ونہار پر قبضہ کرلیا۔ میاں افتخار الدین 6 جون 1962 کو اس جہاں سے کوچ کرگئے۔
مصنف نے عظیم شاعر فیض احمد فیض کی پہلی کتاب ’دست صبا‘ کی افتتاحی تقریب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ فیض جیل میں تھے، میرا ادارہ پیپلز پبلشنگ ہاؤس زیرعتاب اور میرے کئی ساتھی جیلوں میں بند تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں کسی بااثر شخصیت سے دست صباء کی تقریب اجراء کی صدارت کے لیے نہیں کہا جاسکتا تھا۔ عبدالرؤف ملک کا کہنا ہے کہ عبدالرحمن چغتائی سے صدارت کی درخواست کی گئی۔
وہ کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیرکے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سجاد ظہیر کے والد اودھ کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ سجاد ظہیر نے ڈاکٹر ملک راج آنند اور اپنے دیگر ساتھیوں کے مشورے پر لندن میں ہندوستان انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بنیاد رکھی۔
سجاد ظہیر 1940 میں گرفتار ہوئے اور 14 مارچ 1942کو رہا ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کے ہفت روزہ اخبار قومی جنگ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ وہ 1951 میں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے اور 8 جولائی 1955 کو رہائی کے بعد بھارت چلے گئے۔ وہ معروف ادیب سبط حسن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ سبط حسن نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور 1942 میں کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنے۔ وہ پاکستانی ادب اور لیل و نہار کے ایڈیٹر رہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ 24 جولائی 1954 کو کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ رؤف ملک وغیرہ گرفتار کرلیے گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو سے تعلق 70 سال سے بھی پرانا ہے۔
سید مطلبی فرید آبادی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سید مطلبی کو دیہات کے لوگوں سے والہانہ محبت تھی۔ وہ اپنے گاؤں اور اطراف کے لوگوں کے سوچنے کے انداز سے بخوبی وقف تھے۔ مطلبی کے گڑ گاؤں اور بصیرت پور کے میو کسانوں کی حکومتی مظالم کے خلاف جدوجہد میں کردار ادا کیا تھا۔ عبدالصمد خان اچکزئی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اچکزئی نے انگریزوں کے دور میں جیل کاٹی اور قیام پاکستان کے بعد پھر جیل جانا پڑا۔ مصنف نے اس کتاب میں پروفیسر حمید احمد خان، امرتا پریتم، ڈاکٹر افضل، ڈاکٹر ایوب مرزا اور محبوب خان وغیرہ کے ساتھ گزرے ہوئے واقعات کو خوبصورتی سے بیان کیا۔
فرخ سہیل ’سرخ سیاست‘کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سرخ سیاست ایک ایسے شخص کی کتاب ہے جس نے اپنی زندگی محنت کش طبقات کی جدوجہد کے لیے کوششوں میں صرف کی۔ جمہوری پبلکیشنز نے یہ کتاب خوبصورت سرورق کے ساتھ شایع کی ہے اور اس کی قیمت 950 روپے ہے۔