تحریر: واٹسن سلیم گِل ،ایمسٹرڈیم
اقبال کے اس شعر میں (وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ) جو سچائ جھلکتی ہے وہ ہمارے احساس اور ہمارے خوبصورت تصور کی غمازی کرتی ہے۔ دنیا کا شائد ہی کوئ بد بخت مرد ہوگا جو عورت کی کسی بھی معاشرے میں اہمیت سے انکار کرتا ہو۔ میں خود بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری زمین پر اگر عورت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ عورت محبت ، قربانی، ایثار، برداشت ، خوشبو اور حُسن کا ایک پیکج ہے جو خدا تعالی کی طرف سے آدم کے لئے ایک بیش قمیت تحفہ ہے ۔ بہن اور بیٹی کی صورت میں پیار اور سکون قلب ہے۔ بیوی کی صورت میں دوست ، ساتھی ، ہمسفر ہے ۔ اور خود عورت ہماری کائنات میں بقول اقبال رنگینی ہے ، خوشبو ہے ، حُسن ہے، ماں کی محبت کو لفظوں میں ڈھالنا مطلب سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
مد ر ڈے آیا اور گُزر گیا اس دن کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ۔ سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز پر اس دن کے حوالے سے بے شمار پروگرام ، کالم اور تبصرے شامل کئے گئے۔ ہم اپنی ماں کا احترام کرتے ہیں ۔ مگر دوسری عورت کے لئے ہماری آنکھوں میں ہوس ، نفرت اور حقارت ہوتی ہے جبکہ وہ بھی کسی کی ماں ہے یا مستقبل میں ہوگی۔ کیونک وہ پہلے عورت ہے پھر ماں بنتی ہے۔ یہ عورت جسے خدا نے آدم کے لئے ساتھی کی صورت میں بنایا، بیٹی ماں اوربہن تو بعد کی بات ہے۔ خدا رب الجلال نے مرد کو جو سب سے پہلا اور خوبصورت تفحہ دیا ہے وہ عورت (ہمسفر) ہے۔ مگر آدم نے اسے اپنی ہمسفر کے بجائے اپنا غلام سمجھ لیا ہے۔ آج آپ دُنیا کے کسی بھی معاشرے میں دیکھں تو عورت آپ کو ظلم کی چکی میں پسی ہوئ نظر آئے گی۔ مغرب میں کہنے کو خواتین کو برابری کے حقوق حاصل ہیں مگر اس کے باوجود بھی عورت پر تشدد ، جنسی طور پر حراساں کیا جانا اور خواتین کی بے حُرمتی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مگر پھر بھی مغرب میں خواتین سے زیادتی کرنے والے کیفر کردار تک پہنچتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے جنوبی ایشیا میں خواتین کے ساتھ مظالم میں کمی کے بجائے تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گزشتہ سال گیارہ سو سے زائد خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔ یہ سال بھی کوئ خیر کا سال نظر نہی آ رہا ہے۔
ہر روز خواتین کے متعلق افسوسناک خبریں سُن کر ہم پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ ہم کس طرف چل نکلے ہیں۔ پرانی باتوں کو چھوڑ کر ہم صرف گزشتہ تین ہفتوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کا تجزیہ کریں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ پاکستان میں کئ خواتین جن میں چار معصوم بچیاں بھی شامل تھیں ہمارے بے رحم معاشرے کی سنگد لی کا شکار ہوگئ ۔ ایک ماں نے اپنے شوہر سے جھگڑے کے جواب میں اپنی چار کمسن بچیاں پانی کے ٹینک میں پھینک دیں۔ جس سے وہ چاروں ہلاک ہو گئں۔ دو بچیاں سندھ میں کاروکاری کا شکار ہو گئ ۔ ایک 14 سالہ بچی کو اس کے 16 سالہ بھائ نے کسی سے بات کرتے دیکھا اور اسے چھری سے زبع کر دیا۔ حیرت اور دُکھ کی بات یہ تھی کہ ویڈیو میں اس واقعہ کے وقت بہت سے لوگ موجود تھے لڑکی ابھی زندہ تھی اور تڑپ رہی تھی اور بھائ اپنے فون پر ویڈیو گیم کھیل رہا تھا۔ لڑکی کی موت کے بعد جب پولیس نے اس لڑکے کو گرفتار کیا تو ٹی وی اینکر کے پوچھنے پر اس لڑکے نے کہا کہ اسے کوئ افسوس نہی اور نہ ہی اس نے کوئ غلط کام کیا ہے۔
لڑکی کے باپ نے بیان دیا کہ بیٹی تو مر گئ ہے اب میں اپنا بیٹا تو کھو نہی سکتا ۔ یعنی اگر اس لڑکے کو سزائے موت ہوئ بھی تو باپ اپنی بیٹی کا خون معاف کر دے گا۔ ابیٹ آباد میں 17 سالہ لڑکی کو جرگہ نے صرف اس لئے زندہ جلا دیا کہ وہ اپنی سہیلی کی پسند کی شادی کی رازدار تھی۔ جرگے میں علاقے کے معزز لوگ شامل تھے ۔ کسی ایک نے بھی ان سے نہی پوچھا کہ جس لڑکی نے پسند کی شادی کی اسے تو تم نے قتل کر دیا امبرین کو صرف اس بات پر زندہ جلا دینا کہ وہ اس پسند کی شادی کی رازدار تھی کہاں کا انصاف ہے؟۔ فصل آباد میں غیرت کے نام پر تین خواتین کا قتل ، ناصر حُسین کی بیوی ، بیٹی اور بھتیجی کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ ان کو مارنے والے نسرین کا بھائ ۔ اسکا داماد ، بھتیجا شامل ہیں۔ ان کو بھی محض شک کی بنا پر موت کی نیند سُلا دیا گیا ۔ صوبے پنجاب کے جنوبی شہر لیہ میں زکوۃ دینے کے بہانے ایک معذور لڑکی کو طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ سلطان کوٹ کے علاقے کی یہ بدقسمت خاتون 2001 میں پہلے ہی کسی مرد کی درندگی کا شکار ہو چکی ہے جس نے اس خاتون کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں یہ اندھی ہو چکی تھی۔
تین مرد اس کمزور اور لاچار عورت سے کھیلتے رہے اور اسے زخمی حالت میں پھینک کر فرار ہوگئے ۔ اس سے بھی زیادہ اور گھنونا کھیل مظفر گڑھ میں ایک 15 سالہ زہنی معزور بچی کے ساتھ کھیلا گیا۔ ایک بد بخت نے اس زہنی مریضہ کو جو قوت سماعت اور گویائ سے محروم تھی اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ وہ بچی دو دن تک تشویشناک حالت میں موت اور زندگی کے درمیان زندگی کی جنگ ہار گئ ۔ یہ وہ واقعات ہیں جو گزشتہ صرف تین ہفتوں میں ریکارڈ ہوئے ہیں۔ اور بہت سی خواتین تاریک راہوں کا شکار ہونگی جن کے زخموں سے ہم نا آشنا ہیں۔ کہاں ہیں ہماری سیاسی جماعتیں؟۔ پنجاب اسمبلی نے خواتین کے حقوق کے لئے ایک بل پاس کیا تو ہمارا پورا سسٹم ہل گیا۔ اس کی مخالفت کرنے والے سڑکوں پر آگئے ۔ مگر عمران خان سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی نے نواز لیگ کے اس عظیم قدم پر ان کا ساتھ نہی دیا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس غبارے سے ہوا نکل گئ ۔ ہمارے معاشرے کا خواتین سے متلعق رویہ شرمناک ہے۔ اگر لوگ کسی چور یا ڈاکو کا پکڑ لیتے ہیں تو اکھٹے ہوکر قانون ہاتھ میں لیکر خود ہی انصاف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر یہ ہی لوگ جرگوں اور پنچائیتوں میں ہوا کی بیٹی کی تزلیل پر خاموش رہتے ہیں۔ کہا ہے عمران خان جو نئے پاکستان کی بات کرتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ اس بوسیدہ سسٹم میں عمران خان کوئ نئ تبدیلی لائے گا۔
مگر وہ بھی اپنے جلسوں میں اپنی ہی خواتین کی حفاظت نہی کر سکا۔ ہم نے ٹی وی پر کیسے کیسے شرمناک مناظر دیکھے۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ عمران خان نظریاتی طور پر اپنے ٹائگروں کو خواتین کا احترام نہی سکھا سکا تو اپنے ٹائگروں کے ہاتھ میں ڈنڈے تھما دئے۔ یہ وہی عمران خان ہیں جو ایم کیو ایم کے جلسوں پر تنقید کرتے تھے کہ ان کے ورکر جلسوں کے شُرکا کو ڈنڈے کے زور پر سیدھا رکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم کے جلسوں میں خواتین زیادہ محفوظ نظر آتی ہیں ہمارا کونسا ایسا لیڈر ہے جو منافقت کے نعروں کے بجائے حقیقی طور پر خواتین کو تحفظ فراہم کرے گا۔ مجھے تو کوئ نظر نہی آتا۔ خدارا اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں ورنہ ان مظلوم خواتین کی چیخیں عرش ہلا دیں گی اور پھر ہم ہونگے اور قہر الہی ۔
تحریر: واٹسن سلیم گِل ،ایمسٹرڈیم