بہت سے مرد و خواتین فریج میں غذا رکھ کر سوچتے ہیں کہ وہ طویل عرصے کے لیے محفوظ ہوگئی۔ حالانکہ یہ آلہ جادو کی چھڑی نہیں کہ ہمیشہ کے لیے غذا کو محفوظ کردے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اشیائے خورو نوش معین عرصے بعد فریج میں پڑے پڑے بھی خراب ہوجاتی ہیں۔ انہی کی بابت معلومات درج ذیل ہے۔
۔1 منجمد گوشت
فریزر میں مرغی یا گائے کا گوشت منجمد رکھنا گھروں میں معمول کی بات ہے۔اس کا طریق کار یہ ہے کہ گوشت پلاسٹک کی تھیلی میں رکھیے تاکہ وہ جلد از جلد منجمد ہوجائے۔ مزید برآں یاد رکھیے، تھیلی میں سے ساری ہوا نکال دیجیے تاکہ فریزر کا کام آسان ہوسکے۔
فریزر میں رکھا گوشت ایک سے دو ماہ میں استعمال کرلیجیے۔ گو تکینکی طور پر یہ گوشت چھ ماہ تک محفوظ رکھنا ممکن ہے۔ لیکن تب تک اس کے ذائقے اور رنگت میں بڑا فرق آجاتا ہے۔ ریفریجریٹر میں کچا گوشت صرف ایک یا دو دن ہی ٹھیک رہتا ہے۔
۔2 پکا سالن
فریج میں پکا سالن رکھنا مقصود ہو، تو اُسے دو سے چار دن رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن اس دوران فریج کا درجہ حرارت 36ڈگری سینٹی گریڈ ضروری ہے۔ ورنہ سالن خراب ہو سکتا ہے۔ اگر سالن رکھنا ہے، تو بہتر ہے کہ اُسے جما دیجیے۔
۔3 انڈے
اگر انڈے تازہ ہیں تو فریج میں دو تا تین ہفتے محفوظ رہتے ہیں۔ معیاری انڈے پانچ ہفتوں تک بھی قابلِ استعمال رہتے ہیں۔ مزید برآں انڈوں کو فریج کے سب سے سرد حصے میں محفوظ کیجیے۔ دروازے میں نہ رکھیے، کیونکہ اس کے بار بار کھلنے سے درجہ حرارت تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
۔4 چینی…ایک خاموش قاتل
آگاہی کے اس دور میں ناخواندہ بھی یہ اُڑتی خبر سن چکے کہ چینی صحت دشمن ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی نئی بات نہیں البتہ نئی خبر یہ ہے کہ چینی انسانی صحت کو کتنا نقصان پہنچاتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چینی کے نقصانات کے باوجود دنیا بھر میں اس غذا کی کھپت بڑی ہے۔ مثال کے طور پر ہر امریکی سالانہ 130پونڈ چینی کھا جاتا ہے۔ وہ چینی اس کے علاوہ ہے جو کئی غذائوں میں پائی جاتی ہے۔ اِدھر پاکستانی بھی کئی پونڈ چینی ڈکار جاتے ہیں۔ حالانکہ امریکا کے مشہور ڈاکٹر اور کیلی فورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ امسٹگ کا کہنا ہے
چینی انسانی صحت کے لیے اتنی زیادہ نقصان دہ ہے کہ اُسے زہر کہنا بہتر ہے۔
ذیل میں چینی کے وہ نقصانات پیش ہیں جو جدید طبی تحقیق سے حال ہی میں سامنے آئے۔
۔1 چینی اور ہائی فرکٹوز کارن سیرپ ہیں برابر
ہائی فرکٹوز کارن سیرپ ایک مقبول مٹھاس ہے۔ یہ مٹھاس بوتلوں و دیگر میٹھی اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ خون میں پہنچتے ہی چینی سے زیادہ تیزی کے ساتھ شکر میں اضافہ کرتی ہے۔ لیکن ا ب پروفیسر رابرٹ نے دریافت کیا ہے کہ اثر پذیری میں ہائی فرکٹوز کارن سیرپ اور چینی میں کوئی فرق نہیں۔ جسم میں پہنچتے ہی دونوں ایک جیسی ہوجاتی ہیں۔
دراصل عام چینی آدھی فرکٹوز اور آدھی گلوکوز ہوتی ہے۔ جبکہ ہائی فرکٹوز کارن سیرپ55فیصد فرکٹوز اور45فیصد گلوکوز رکھتا ہے۔ گو فرکٹوز اور گلو کوز مختلف طریقے سے ہضم ہوتی ہیں، لیکن آخر کار دونوں خون ہی کا حصہ بنتی ہیں۔
۔2 ٹھوس اور مائع چینی میں فرق
ماہرین نے بذریعہ تحقیق جانا ہے کہ بوتلوں اور مشروبات میں شامل چینی انسانی صحت کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مائع حالت میں چینی بہت جلد جگر تک پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا اُسے پروسیس کرنے کے لیے جگر کو تیزی سے کام کرنا پڑتا ہے اور زور لگا کر! نتیجتاً جگر بیشتر چینی کو چربی میں بدل دیتا ہے۔ نیز یہ عمل مسلسل جاری رہے، تو انسان ذیابیطس کا نشانہ بن جاتا ہے۔
۔3 چینی امراض قلب پیدا کرتی ہے
عام خیا ل یہی ہے کہ زیادہ چینی کھانے سے ذیابطیس پیدا ہوتا ہے۔ مگر انسانی جسم میں شکر کی زیادتی دل کی بیماریوںکو جنم دیتی ہیں۔ دراصل انسان میٹھی اشیا زیادہ کھائے، تو اس کا بدن بطور ردِ عمل کثیر مقدارمیں انسولین پیدا کرتا ہے۔ انسولین کی غیر فطری زیادتی ہی پھر خرابیاں جنم دیتی ہے۔
دراصل انسولین زیادہ ہو، تو انسان کا بلڈ پریشر بڑھتا ہے، اچھا کولیسٹرول (ایچ ڈی ایل) کم ہوجاتا ہے اور خون میں چکنائی کی ایک قسم ٹرائی گلیسرائیڈز بِسکٹ بڑی تعداد میں جنم لیتی ہے۔ یہ تمام عوامل ہی مل کی امراض قلب پیدا کرتے ہیں۔
۔4 تھکن پیدا ہونے کا سبب
پاکستان میں لاکھوں مرد و زن سہ پہر کو تازہ دم ہونے کی خاطر چائے پیتے ہیں۔ اسی موقع پر کیک، بِسکٹ وغیرہ بھی تناول کیا جاتا ہے۔ یوں انسان واقعی تازہ دم ہوجاتا ہے، لیکن مختصر وقت کے لیے…بلکہ آدھ پون گھنٹے بعد اس پر خواہ مخواکی تھکن طاری ہوجاتی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ سہ پہر کو انسان جیسے ہی میٹھی شے کھائے، خون میں شکر یا چینی کی سطح بڑھنے سے وہ چاق چوبند ہوجاتا ہے۔ لیکن جب جسم چینی کو پروسیس کرنے کی خاطر زیادہ انسولین پیدا کرے، تو خون میں چینی کی سطح اچانک گر جاتی ہے۔ یہی کیفیت پھر انسان میں تھکن کا احساس پیدا کرتی ہے۔
۔5 گردوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے
خون میں ہر وقت چینی کی موجودگی گردوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ہمارے گردوں کا کام یہ ہے کہ خون سے زہریلے مادے چھان کر نکالتے رہیں۔ جب خون میں چینی کی مقدار بڑھ جائے، تو وہ زہر میں بدل جاتی ہے۔ یوں اُسے نکالنے کے لیے گردوں کو معمول سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
جب گردے طویل عرصہ اسی سرگرمی میںمشغول رہیں، تو آخرکار اپنی قوت کھو بیٹھتے ہیں۔ یوں ان کے بگڑنے کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ماہرین نے تحقیق سے جانا ہے کہ زیادہ میٹھی اشیا کھانے پینے سے گردے اور جگر، دونوں فطری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔