ايمنسٹی انٹرنيشنل کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق دنيا ميں موجود قريب اکيس ملين مہاجرين کے چھپن فيصد کو دس ممالک ميں پناہ دی گئی ہے۔ رپورٹ ميں پناہ گزينوں کی غير منصفانہ تقسيم پر امير ممالک پر کڑی تنقيد کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کے امور پر نظر رکھنے والی عالمی تنظيم ايمنسٹی انٹرنيشنل نے انکشاف کيا ہے کہ مسلح تنازعات کی شکار ریاستوں کے پڑوسی ممالک پناہ گزينوں کا سب سے زيادہ بوجھ اٹھا رہے ہيں۔ منگل چار اکتوبر کو برطانوی دارالحکومت لندن سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت عالمی سطح پر تقريباً اکيس ملين افراد پناہ گزينوں کی حيثيت سے رہ رہے ہيں، جن کی چھپن فيصد تعداد صرف دس ملکوں ميں مقيم ہے۔ تنظيم نے غير منصفانہ تقسيم کے اس مسئلے کے حل کے ليے ايک تجويز پيش کی ہے جس کے مطابق ہر سال پناہ گزينوں کی مجموعی تعداد کے دس فيصد حصے کو مختلف ممالک ميں بسايا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کے مطابق شام، افغانستان، برونڈی، جنوبی سوڈان اور ديگر ممالک ميں جاری مسلح تنازعات کے سبب اس وقت عالمی سطح پر پناہ گزينوں کی مجموعی تعداد لگ بھگ 21.3 ملين ہے۔ اس ميں سے چھپن فيصد پناہ گزين اردن، لبنان، ترکی، پاکستان، ايران، چاڈ، ايتھيوپيا، کينيا، يوگينڈا، کانگو اور ايران ميں رہائش پذير ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے ترجمان وليم اسپنڈلر نے اس بارے ميں جاری کردہ ايک حاليہ بيان ميں کہا، ’’مہاجرين کو پناہ فراہم کرنے کی ذمہ داری اس وقت غير منصفانہ بنيادوں پر تقسيم ہے۔‘‘
ايمنسٹی کی رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ پناہ گزينوں کی غير منصفانہ تقسيم مہاجرين کے بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے کيونکہ کئی ميزبان ممالک غريب ممالک ہيں اور وہ پناہ گزينوں کی ضروريات پوری نہيں کر پاتے۔ نتيجتاً پناہ گزين يورپ اور آسٹريليا جانے کے ليے خطرناک راستے اختيار کرتے ہيں۔
ايمنسٹی انٹرنيشنل ميں عالمی امور کے ڈائريکٹر اوڈری گوگہرن نے بذريعہ ٹيلی فون ديے اپنے ايک انٹرويو ميں کہا، ’’بچوں کو تعليم کی سہولت ميسر نہيں اور لوگوں کو خوراک نہيں مل رہی۔‘‘ انہوں نے اس صورتحال کو ’غير منصفانہ اور غير مستحکم‘ قرار ديا۔ ايمنسٹی نے مالی اعتبار سے امير ممالک پر زور ديا ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق مہاجرين کو پناہ فراہم کريں۔ ادارے کے سيکرٹری جنرل سليل شيٹی کے بقول مسئلہ يہ نہيں کہ پناہ گزينوں کی تعداد کتنی ہے بلکہ مسئلہ يہ ہے کہ دنيا کے امير ترين ممالک مستحق مہاجرین کو مدد اور پناہ فراہم کر نے میں سب سے پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔