تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
پاکستان اور کراچی کے عوام کہتے ہے مہاجر سر آنکھوں پر، مگر ایم کیو ایم نہیں! اس کا ثبوت عوام کی طرف سے پاکستان بھر میں اور کراچی میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین صاحب کے خلاف قا ئم مقدمات ہیں، جن میں ان کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ ان کے پاکستان دشمنی کے بیانات کے خلاف ریلیاں نکل رہی ہیں۔
پنجاب، آزادکشمیر، بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور آخر میں سندھ اسمبلی نے بھی الطاف حسین کے خلاف قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔تمام سیاسی پارٹیوں بمشول پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاب جناب خورشید شاہ صاحب نے الطاف حسین کے بیانات کو رد کرتے ہوئے ان کو پاکستان مخالف بیانات قرار دیا ہے۔ پاکستان کے اخبارات اُٹھا کر دیکھیں اُ ن کے اداریے کیابیان کر رہے ہیں۔اخبارات میں کالم نگاروں کی کیا رائے ہے۔ تجزیہ کار کیا تجزیے کر رہے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا پر ٹی وی اینکر کیسے پروگرام کر رہے ہیں۔کیا یہ سب ایم کیو ایم کے رویے اورپالیسیوں کو رد نہیں کر رہے۔ کیا الطاف حسین کو اس آوازِ خلق کو نقارہِ خد اسمجھ کر اپنی اصلاح نہیں کر لینی چاہیے۔
کیا الطاف حسین پاکستان کی بہادر فوج اور رینجرزکو نازیبا گالیاں نہیں دے رہے ۔کیا ایک محب وطن پاکستانی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا گریٹر بلو چستان بنے گااور پختونستان بنے گا کراچی ان کا ہیڈ کواٹر بنے گا۔ کیا یہ پاکستان دشمنی کے منصوبے نہیں۔کیا یہ پاکستان توڑنے کے منصوبہ سازوں کا ساتھ دینے کی باتیں نہیںیقینا ہیں! کیا الطاف حسین نے بھارت میں بیان نہیں دیا تھا کی پاکستان بننا ایک تاریخی غلطی تھی کیا یہ پاکستان کی نفی نہیں۔ کیا اس سے پاکستان بنانے والوں ہمارے بزرگوں کی روحوں کو اذیت نہیں پہنچی ہو گی یقیناً پہنچی ہو گی۔ کیا آئے روز الطاف حسین کے بیانات ملک میں بے چینی نہیں پھیلا رہے۔کیا الطاف حسین ہمارے ازلی دشمن بھارت سے مدد نہیں مانگ رہے۔
اب تو ایم کیو ایم نے بھارت کو مداخلت کے لیے باقاعدہ خط بھی لکھ دیا ہے۔کیا یہ پاکستان کے دشمن مرحوم جی ایم سید، جس نے اندرا گاندھی کو پاکستان پر حملے کی دعوت دی تھی کی روح کو تسکیں پہنچانے کی کوشش نہیں۔کیا الطاف حسین نیٹو فوجوں کو کراچی نہیں بُلا رہے۔کیااقوام متحدہ کو کراچی میں مداخلت کی دعوت نہیں دے رہے۔کیا برطانیہ کو الطاف حسین نے خط نہیں لکھا کہ وہ پاکستان کی آئی ایس آئی کو ختم کر دے ایم کیوایم ان کا ساتھ دے گی۔ کیاکراچی میں فوج اور رینجرز کو معصوم مہاجر بچوں اور خواتین سے گالیاں دلوانے کی حرکت غلط نہیں کر رہے۔کیا اس وقت ملک میں گوریلا جنگ نہیں ہورہی۔ کیا ہماری مسلح افواج ضرب عضب میں دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ رہی۔ کیا ہمارے ملک کے فوجی اورعوام ساٹھ ہزار کی تعداد میں شہید نہیں ہو چکے۔ کیاپاکستان کا سو ارب ڈالر کا مالی نقصان نہیں ہو چکا۔ کیا بھارت ہماری سرحدوں پر بے گناہ شہریوں کو آئے دن شہید نہیں کر رہا۔کیا بھارت افغانستان سے ملا فضل اللہ پاکستانی طالبان کے سربراہ کے ذریعے دہشت نہیں پیھلا رہا۔کیا ان حالات میں الطاف حسین کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے یا بے چینی پیھلانا چاہیے۔
مہاجروں کے حقوق کی جعلی باتیں کرنے والے، پچھلے پچیس برس سے کراچی پر حکمرانی کرنے والے الطاف حسین نے کراچی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ کراچی کے عوام کونہ پانی مل رہا ہے ،نہ بجلی اور نہ امن امان۔ اوپر سے ایم کیو ایم کے بھارت سے ٹریننگ لے کر آنے والے دہشت گردوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اگر یہ سب کچھ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے تو الطاف حسین پاکستان کے دشمنوں جیسی باتیں کر کے پاکستانی عوام کے سینوں پر مونگ دل رہے پاکستان کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ اس پر بھی اگرالطاف حسین اگر مظلوم بن کر چاہتا ہے کہ پاکستان اور کراچی کے عوام ایم کیو ایم کے مئوقف کو صحیح مانیں یہ ممکن نہیں! ہجرت کے وقت پاکستان کے عوام نے مہاجروں کو مثل مدینہ انصار کی طرح دل سے قبول کیا تھا۔ یقیناً کیا تھا! تاریخ اس کی گواہ ہے۔
مہاجروں نے بھی پاکستان کو دل سے قبول کیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ جن علاقوں میں پاکستان نہیں بننا تھاان علاقوں کے مسلمانوں نے بھی ہجرت کی تھی۔ کراچی کے مہاجروں نے ہمیشہ پاکستان کے اسلامی اور دوقومی نظریے کی حمایت کی۔پاکستان کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔کراچی کے دوسرے لوگوں نے ان کی تہذہب کو اپنایا ان کو عزت اورتکریم کی نظر سے دیکھا۔کراچی سے مہاجروں کی سیاسی سوجھ بوجھ کو پورے پاکستان کے عوام اپناتے تھے۔ حکومت کی طرف سے کراچی میں بندر گاہ کی وجہ سے صنعتیں لگائی گئیں پھرپورے پاکستان کے لوگ کراچی میں محنت مزدوری کرنے کے لیے آتے رہے۔ کراچی منی پاکستان کہلایا۔ جب کراچی سے اندرون ملک ٹرینوں پر عوام کارش دیکھا تو قائد ملت لیاقت علی خان صاحب نے خوشی سے کہا تھا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔پھرایک وقت آیا اور کراچی پر دشمنوں نے نظریں گاڑ دیں۔ کسی دفاعی تجزیہ کار نے بہت پہلے کہا تھا کہ ١٩٦٥ء کی جنگ کے بعد ہمارے ازلی دشمن بھارت نے پروگرام بنایا تھا کہ پاکستان بنانے والوں کی اولادوں میں سے کوئی ایساآدمی تلاش کیا جائے جو پاکستان کی وجود کی نفی کرے جو پاکستان کی شہ رگ کراچی کے منی پاکستان اورسندھ میں لوگوں کے درمیان دشمنی ڈالے۔
پھر انہیں الطاف حسین مل گیا۔ پہلے اس کو پاکستان کے خلاف گریٹ گیم کے تحت امریکا کی یاترہ کرا کر برین واشنگ کی گئی ۔پھر الطاف حسین نے مہاجر اسٹوڈنٹ کی بنیاد رکھی۔پاکستان کا جھنڈا جلایا۔ مہاجر قومی موومنٹ قائم کی پھر اسے متحدہ قومی موومنٹ بنایا۔ مرحوم جی ایم سید دشمن پاکستان سے مراسم قائم کئے۔ بھارت کے مشورے پر جی ایم سید صاحب نے الطاف حسین کو پٹی پڑھائی کہ مہاجر تو ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہو گئے تو چلو ٹھیک ہے (حالاں کہ جی ایم سید کا سارا سندھی لٹریچر مہاجروں کی مخالفت سے بھرا پڑا ہے وہ ان کو مکڑ لکھتے رہے ہیں) مگر پاکستان کی دوسر ی قومیں یعنی پنجابی،پٹھان،کشمیری ،بلوچی کراچی میں کہاں سے آ گئیں انہوں نے سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ چلو میرے ساتھ اب ان کو سندھ سے بھگائیں۔ الطاف حسین نے نعرہ لگایا سندھی مہاجر بھائی بھائی، نسوار اور دھوتی کہاں سے آئی۔ مہاجروں سے کہا ٹی وی اور وی سی آر فروخت کروں اور اسلحہ خریدوں۔ مہاجروں کو اس پر تیار کیا کہ حقوق یا موت۔ایک پڑھی لکھی، مہذب، با اخلاق آبادی کے نوجوانوںکو دلیل اور قلم چھین کر ان کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھما دی اور انہیں دہشت گرد بنا دیا۔ پھر وہی کچھ ہوا جو کلاشنکوف والے دہشت کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم نے کراچی کو یرغمال بنا لیا ان کے حکم کے بغیر کراچی کا ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتاتھا۔ ووٹر لسٹوں کو ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج ترتیب دیتے تھے۔حلقہ بندیاں اپنی مرضی کی بنائی جاتی تھیں۔ پولنگ کے دن پولنگ اسٹیشنوں پر ایم کیو ایم کے مسلح کارکن قبضہ کر لیتے تھے ٹھپے پر ٹھپے لگا کر الیکشن جیت لیتے تھے۔ کراچی کی پوری کی پوری آبادی کو خوف کے ذریعے دبا لیا گیا اور ہر الیکشن میں جیت ایم کیو ایم کی ہوتی تھی۔لوگ این اے ٢٤٦ کے زمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کی جیت کی بات کرتے ہیں مگر کراچی کے لوگ کہتے ہیں جب الطاف حسین کی اللی تللی تقریر سننے کے لیے کراچی کے صحافیوں کو آٹھ گھنٹے یرغمال بنا کر رکھا گیا کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی اسی وقت پاکستان کے ساٹھ سے زیادہ ٹی وی اسٹیشن آٹھ گھنٹے تک یرغمال بن کر تقریر نشر کرتے رہے اور کمرشل ایڈورٹائسزمنٹ بھی نہ چلا سکتے تھے تو این اے٢٤٦ کے خوف زدہ بے سہارا لوگ کیسے ایم کیو ایم کو ووٹ نہ دیتے کیا انہیں بوریوں میں بند ہونا تھا۔
جعلی الیکشن کی اگر بات کی جائے تولانڈھی کے سیکٹر آفس سے جعلی نیشنل آڈنٹی کارڈ کی بوریاں بر آمدہوئی تھیں ۔ پی ای سی ایج سوسائٹی کے ایک گھر میں تین سو ووٹ درج تھے۔ ایم کیو ایم کی قتل غارت پر ١٩٩٢ء میں فوج نے آپریشن کیا تو حسب عادت ظلم کی داستانیں بیان کی گئیں۔اس کے بعد الیکشن ہوئے ایم کیو ایم پہلے کی طرح دھاندلی کے زور پر جیت گئی نواز شریف صاحب کو قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ووٹوں کی ضرورت تھی۔ایم کیوایم کو ٧٥ کروڑ روپے دیے گئے اور قتل غارت سے چشم پوشی بھی کی گئی۔اب پھر ن لیگ کے اسپیکر نے بقول عمران خان صاحب دہشت گرد اور ملک دشمن الطاف حسین سے فون پر بات کر کے پاکستان کے عوام کی خواشات کے برعکس عمل کیا۔ پیپلز پارٹی کو بھی ایم کیو ایم کے ووٹوں کے ضرورت تھی تو ایم کیو ایم کو قتل و غارت کی کھلی چھٹی ملتی رہی۔ پاکستان کے عوام کے مطابق یہ دونوں جماعتیں ایم کیو ایم کے جراہم میں برابر کی شریک رہی ہیں۔اب ایم کیو ایم پاکستان کے لیے ناسور بن گئی ہے لہٰذا پاکستان کی محافظ بہادر فوج نے اسے پھر کاٹنے کی ٹھان لی ہے پہلے بھی فوج نے امن قائم کیا تھا مگر سیاستدانوںنے ایم کیو ایم کا ساتھ دیا۔پورے ملک ا ور کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے۔ جس سے پورے ملک اور کراچی میں ٢٥ سال بعد امن قائم ہوا ہے کراچی کے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے روشنیوں کے شہر کراچی کی پھر سے رونقیں لوٹ آئی ہیںبھتہ خوری اور ہدافی کلنگ ختم ہو گئی ہے عید پر بقول کراچی تاجر برادری ٢٥ سال بعد کھل کر تجارت ہوئی ہے۔
کراچی کے لوگ فوج اور رینجرز کو سلام پیش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے کرمنل عناصر سمیت کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم ہونے چاہیے۔ کراچی کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ کراچی کے سارے لوگوں کی کراچی کے مہاجروں سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کے سِر آنکھوں پر، مگر انہیںدہشت گردایم کیو ایم سے لاتعلقی کا فیصلہ کرنا پڑھے گا ۔اب موقعہ ہے کہ آپ دہشت گردی سے پاک سیاست کی بنیاد رکھیں اور دہشت گردوں سے برأت کا اعلان کریں۔ کراچی کے لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔ کراچی کے مہاجروں کو سیاست سے کوئی مائی کالال نہیں روک سکتا۔ مگر نظریہ پاکستان پر ایمان رکھنے والے مہذب، اخلاق سے مالا مال،دلیل سے بات کرنے مہاجروں کو کراچی کے عوام خوش آمدید کہیں گے۔ ایم کیو ایم والے دہشت گرد مہاجروں کو نہیں۔اللہ منی پاکستان کراچی کے عوام کو مل جل کر رہنے کی توفیق عطافرمائے آمین۔
تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی)