لاہور (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی میں ایک متنازعہ خطاب پر سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کی سماعت کے بعد برطرف کرنے کی سفارش کی، جس پر صدر مملکت نے عملدرآمد کی منظوری دے دی اور عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
نامور صحافی اور کالم نگار نسیم شاہد روزنامہ پاکستان میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو برخاست کرنے کا یہی ایک آئینی طریقہ ہے، جسے استعمال کیا گیا۔ ایسا فیصلہ طویل عرصے کے بعد دیکھنے کو ملا ہے، وگرنہ اکثر جج صاحبان جن کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں چلا جاتا ہے، از خود استعفا دے دیتے ہیں، تاکہ اُن کی مراعات برقرار ہیں، لیکن شوکت عزیز صدیقی نے ایسا نہیں کیا اور کیس لڑنے پر بضد رہے، جس پر یہ فیصلہ سامنے آیا۔ اُن کی برطرفی شاید اپنی نوعیت کے واحد ریفرنس میں ہوئی ہے، عموماً ججوں پر کرپشن کے الزامات میں کارروائیاں ہوتی رہی ہیں، مگر شوکت عزیز صدیقی فوج اور اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان پر تنقیدی خطاب کرنے کی یاداش میں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کا شکار ہوئے۔ برطرفی کے بعد انہوں نے اس فیصلے کو جانبدارانہ قرار دیا، انہوں نے یہ نکتہ بھی اُٹھایا کہ انہوں نے ریفرنس کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کی استدعا کی تھی، جسے منظور نہیں کیا گیا۔ میں نے جو کچھ کہا تھا، آج بھی اُس پر قائم ہوں، لیکن اُن الزامات کی کسی نے انکوائری نہیں کرائی۔ اس میں کوئی شک نہیں، سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی دنوں میں مشہور ہونے والے جج تھے،
وہ فیصلے کم اور ریمارکس زیادہ دیتے تھے اور اُن کے ریمارکس پر میڈیا جو طوفان اٹھاتا تھا، غالباً وہ اُس سے حظ اُٹھاتے تھے، جج کو اتنا بلند آہنگ نہیں ہونا چاہتے۔ یہ سہولت صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو حاصل ہوتی ہے کہ وہ ملک کا سب سے بڑا قاضی ہونے کے ناطے نصیحتیں بھی کرسکتا ہے اور سرزنش بھی۔ شوکت عزیز صدیقی کے بہت زیادہ متنازعہ ریمارکس دینے کے حوالے سے باخبر حلقے یہ کہتے تھے کہ وہ جان بوجھ کر خود کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں موجود اس انکوائری کو انتقامی ظاہر کرسکیں جو اُن پر اپنے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لئے حد سے زیادہ اخراجات کرنے اور اس کی آڑ میں مفادات لینے سے متعلق چل رہی ہے، اُن کا گمان تھا کہ خفیہ ایجنسیاں اُن پر نظررکھے ہوئے ہیں اور وہی یہ سب کرا رہی ہیں، اس لئے وہ متنازعہ باتوں کے حوالے سے شہ سرخیوں میں رہنا چاہتے تھے، تاکہ جب کبھی اُن کے خلاف کوئی کارروائی ہو تو لوگ یہ سمجھیں کہ انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جب اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک کا دھرناہوا اور اُس کے خلاف دائر درخواست اُن کے پاس آئی
اور انہوں نے انتظامیہ کو دھرنا ختم کرانے کا حکم دیا۔ ڈیڈ لائن بھی دی تو حالات گویا اُن کے ہاتھ سے نکل گئے۔ وہ جو چاہتے تھے، انتظامیہ خون خرابے کے خدشے سے وہ نہیں کرسکتی تھی، اسی اثنا میں اُس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چیف آف آرمی سٹاف سے رابطہ قائم کرکے دھرنا ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ فوج کی مداخلت سے دھرنا بھی ختم ہو گیا اور وزارت داخلہ کے ساتھ ایک معاہدہ بھی طے پایا جس کی ضمانت آرمی کے بریگیڈئر نے دی۔ شوکت عزیز صدیقی جو پہلے ہی اس کیس کو سن رہے تھے،اس معاہدے پر سیخ پا ہو گئے اور اگلے دن انہوں نے تمام فریقوں کو طلب کر لیا، سماعت کے دوران انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ کسی بھی طرح ایک جج کے شایانِ شان نہیں تھا۔ انہوں نے آرمی چیف کو بھی شدید لفظوں میں ہدف تنقید بنایا اور ساتھ ہی کہا کہ وہ کون ہوتا ہے، معاہدہ کرانے والا،اس کی کیا آئینی حیثیت ہے اور فوج ایسے سول معاملات میں مداخلت کیسے کر سکتی ہے۔ریمارکس اتنے سخت تھے کہ ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہنا پڑ گیا کہ اب شاید مَیں خیریت سے گھر نہ جا سکوں،مگر چونکہ انہوں نے یہ سب کچھ عدالت میں بیٹھ کر کہا تھا، اس لئے ان کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں بن سکتا تھا۔
شوکت عزیز صدیقی کو اس کا شوق تھا یا اُن میں یہ خوبی تھی کہ وہ میڈیا میں ان رہنا چاہتے تھے۔ٹی وی چینل کے متنازعہ پروگرام ہوں یا دیگر سوشل ایشو، وہ کیس کا تعلق نہ بھی بنتا تو معاملے کو اس طرف کھینچ کر لے آتے،چونکہ وہ یہ سب ریمارکس جج کی کرسی پر بیٹھ کر دیتے تھے، اِس لئے معاملات چلتے رہے،مگر معاملہ اُس وقت بگڑا جب انہوں نے راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار میں انتہائی متنازعہ تقریر کی۔ اس میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں پر الزام دھرا کہ ہ ججوں کو ڈکٹیشن دیتی ہیں یہاں تک کہ چیف جسٹس کو بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کون سا کیس کس جج کو بھیجنا ہے۔ اس طرح گویا انہوں نے براہ راست اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر بھی ڈکٹیشن لینے کا الزام لگایا تھا، انہوں نے اپنے خطاب میں سیاست کو بھی شامل کر لیا،جب یہ کہا کہ نواز شریف کا کیس سننے کے لئے چیف جسٹس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کو بنچ میں شامل نہ کریں۔یہ ایسی بات تھی جس نے ملک میں ایک ظوفان برپا کر دیا۔وہ فضا جو پہلے ہی نواز شریف کے بیانیے کی وجہ سے فوج کو متنازعہ بنائے ہوئے تھی۔ مزید متنازعہ ہو گئی۔
صورت حال اس قدر خراب ہوئی کہ فوج کو باقاعدہ چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ایک درخواست لکھنی پڑی، جس میں اپیل کی گئی کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی انکوائری کے لئے اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے،اس درخواست پر چیف جسٹس نے کارروائی کرتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی کو جواب دینے کے لئے لیٹر جاری کیا،مگر انہوں نے جواب نہیں دیا،جس پر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا گیا،یہاں بھی شوکت عزیز صدیقی نے الزامات کا سنجیدگی سے جواب دینے کی بجائے کھلی عدالت میں سماعت کرنے جیسے مطالبات رکھے،جنہیں رد کر دیا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی کارروائی مکمل کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جس پر صدرِ نے اُن کی برطرفی کا حکم جاری کر دیا۔ شوکت عزیز صدیقی کا کیس بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے،ججوں کا کوڈ آف کنڈکٹ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، انہیں آئین نے مکمل تحفظ دیا ہے تو ساتھ ہی کئی قدغنیں بھی لگائی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جج اپنے نظریات کو اپنے منصب پر اس طرح غالب کر دے کہ اُس کی غیر جانبداری مشکوک ہو جائے۔یہ کسی بھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے بنچ میں شامل کرلے۔
کوئی ماتحت جج اُسے ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، اب شوکت عزیز صدیقی کا یہ کہنا کہ چیف جسٹس کو آئی ایس آئی کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی کہ وہ نواز شریف کا کیس سننے والے بنچ میں شوکت عزیز صدیقی کو شامل نہ کریں، ایک ایسی درفنطنی ہے، جس کا کوئی ثبوت دیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ کہہ کر شوکت عزیز صدیقی نے گویا شریف فیملی کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ تو اُن کے حق میں فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں بنچ میں شامل ہی نہیں کیا جارہا۔ دوسرا کیا اُن کی اس بات سے یہ تاثر نہیں اُبھرتا کہ وہ اس معاملے میں جانبدار تھے اور نواز شریف کو ر یلیف دینے کے لئے کیس سنے بغیراپنا ذہن بنا چکے تھے، کوئی جج یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ مجھے فلاں بنچ میں اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ چیف جسٹس کو خطرہ تھا کہ میں ایک خاص فریق کے حق میں فیصلہ دوں گا۔ پھر ایک جج کو یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ وہ فوج کے جرنیلوں کو کہے یہ لوگ خود کو ملک کا مالک سمجھتے ہیں، انہیں کس نے اجازت دی ہے۔ یہ ایک سیاستدان تو کہہ سکتا ہے، مگر ایک جج نہیں کہہ سکتا،
یہ تو اُس کے کوڈ آف کنڈکٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے کہ وہ قومی اداروں کے بارے میں ایسے سوالات اُٹھائے۔ اب اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا کہ شوکت عزیز صدیق اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہے یا مکافات عمل کا شکار ہوئے، انہوں نے ایک متنازعہ تقریر کرکے پانسہ پلٹ دیا اور ایک ایسے الزام میں عہدے سے برخاست ہوئے، جس میں اُن کے ہیرو بننے کے امکانات بھی موجود ہیں، جیسا کہ اب سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ انہوں نے سچ کی خاطر اپنی ملازمت قربان کردی، اب اُن کے لئے سیاست کا میدان بھی کھلا ہے اور وکالت کا بھی۔ بہر حال وہ ہر دوصورتوں میں مکافات عمل کا شکار ہوتے ہیں، وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا، انہوں نے بہت کچھ بویا جو انہیں کاٹنا پڑا۔ ایک زمانہ تھا کہ عام لوگوں کو ججز کی شکلیں تک عدالت سے باہر دیکھنے کو نہیں ملتی تھیں، آج جج صاحبان نے اپنے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں اور وہ بھرے جلسوں میں تقریریں کرتے ہیں، ایسے میں اُن کا خطاب کرتے ہوئے بھٹک جانا کوئی بعید نہیں، لیکن شوکت عزیز صدیقی کی طرح انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔