اسلام آباد (ویب ڈیسک) متحدہ عرب امارات نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو باپ اور مسلم ماں کے یہاں پیدا ہونے والی بچی کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دیدیا ہے۔ بچی کی عمر 9؍ ماہ ہے۔ امارات نے ’’برداشت کے سال‘‘ منائے جانے کے دوران ملک کے شادی کے قوانین کو ایک طرف نامور صحافی صالح ظافر اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔رکھتے ہوئے کسی غیر ملکی باشندے کو یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، کرن بابو اور صنم صدیقی نے 2016ء میں بھارتی ریاست کیرالہ میں شادی کی تھی۔ متحدہ عرب امارات میں ان کے یہاں جولائی 2018ء میں بیٹی کی ولادت ہوئی۔ غیر ملکی باشندوں کیلئے اماراتی قوانین کے مطابق، غیر مسلم خاتون مسلمان مرد سے شادی کر سکتی ہے لیکن غیر مسلم مرد سے مسلم خاتون کی شادی نہیں ہو سکتی۔ کرن بابو اور ان کی اہلیہ صنم صدیقی شارجہ میں رہتے ہیں۔ کیرالہ میں ان کی شادی کے وقت تنازع پیدا ہو گیا تھا کہ مسلم لڑکی اور ہندو لڑکے کی شادی ہو سکتی ہے یا نہیں کیونکہ یہ اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔ مسلم کمیونٹی نے ایسی شادیوں کیخلاف سخت مہم شروع کر رکھی ہے۔ کرن بابو کا کہنا تھا کہ میرے پاس ابو ظہبی کا ویزا ہے، مجھے انشورنس کوریج ملتا ہے اور حاملہ ہونے پر بیگم کو مقامی اسپتال میں داخل کرایا لیکن انہوں نے مجھے بچی کا پیدائش سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد میں نے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کیلئے مقامی عدالت سے رجوع کیا، ٹرائل چار ماہ جاری رہا لیکن درخواست مسترد کر دی گئی۔ کرن بابو کا کہنا تھا کہ چونکہ بچی کے قانونی دستاویزات نہیں تھے اسلئے ساری امیدیں استثنیٰ پیریڈ پر لگا دیں۔ متحدہ عرب امارات نے 2019ء کو برداشت کا سال قرار دیا تھا تاکہ اسے برداشت کے اصولوں پر عمل پیرا مثالی قوم قرار دیا جا سکے۔ کرن بابو کا کہنا تھا کہ وہ دن بڑے تکلیف اور پریشانی کے دن تھے اور استثنیٰ ہی امید کی کرن تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جوڈیشل ڈپارٹمنٹ نے میرا مقدمہ تیار کیا جس کے تحت مقدمہ چیف جسٹس کو پیش کرنا تھا اور اس کے بعد وزارت صحت نے برتھ سرٹیفکیٹ تیار کرنا تھا۔ میں دوبارہ عدالت گیا اور اس مرتبہ درخواست منظور کر لی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔ بھارتی قونصلر کا کہنا تھا کہ یہ تاریخی فیصلہ آئندہ کیلئے مثال بنے گا۔