لندن (ویب ڈیسک) مریم نواز جیل سے رہائی کے باوجود منظر عام پرنہیں آئیں جبکہ ان کے حوالے سے طرح طرح کی افواہیں سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی ہیں ۔ افواہوں کے اس بازار میں ریحام خان نے مریم نواز کی تعریف میں ایک کالم لکھا ہے جس میں انہیں نئے پاکستان کا چہرہ اورپاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے والی واحد سیاسی شخصیت قرار دیا ہے۔
ریحام خان نے اپنے انگریزی آرٹیکل میں لکھا ” مریم نواز کی اپنی والدہ کی نماز جنازہ پر ایک جھلک نظر آئی تھی جس کے بعد سے نہ تو ان کی کوئی تصویر آئی ہے اور نہ ہی انہوں نے کوئی ٹویٹ کیا اور نہ وہ کسی پبلک مقام پر سامنے آئیں۔ مریم نواز کے منظر عام پر نہ آنے کے باعث میں نے ان سے رابطے کی مختلف طریقوں سے کوشش کی لیکن وہ اس وقت کسی سے بھی رابطے میں نہیں ہیں، ان کے موبائل فون بند ہیں، اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں کہ ان کا گیم پلان کیا ہے، پاکستانی توقع کر رہے تھے کہ وہ اپنی والدہ کے 40روزہ سوگ کے بعد منظر عام پر آجائیں گی لیکن وہ سامنے نہیں آئیں۔اب جبکہ سپریم کورٹ نے سزا معطلی کے خلاف درخواست پر مریم نواز کو نوٹس جاری کردیا ہے تو اب امید کی جارہی ہے کہ شاید وہ منظر عام پر آئیں لیکن ان کی خاموشی طویل ترین ہوتی جارہی ہے“۔ریحام خان نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ ان کی بینظیر بھٹو کی بڑی مداحوں میں شامل ماروی سرمد جیسے صحافیوں سے گفتگو ہوئی تو ان کا جھکاﺅ ن لیگ کی طر ف پایا ۔ماروی سرمد بتاتی ہیں کہ,
کیسے ن لیگ کی خواتین 90 کی دہائی میں بینظیر بھٹو کو گھر بیٹھنے کی ترغیب دیا کرتی تھیں کیونکہ وہ اس وقت حاملہ تھیں لیکن اب لگتا ہے کہ مریم نواز اپنے والد کی سب سے بڑی سیاسی حریف (بینظیر) کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ریحام خان کے مطابق مریم نواز کی جانب سے ’ مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ روک سکو تو روک لو ‘ کے نعرے لگائے جانے کے بعد ہمیں یہ تو نہیں پتا کہ مریم نواز کس قسم کی خارجہ پالیسی چاہتی ہیں لیکن ہمیں اتنا ضرور پتا ہے کہ وہ گزشتہ 70 سال میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سخت مخالف اکلوتی رہنما بن کر ابھری ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں اچھی خواتین صرف انہیں سمجھا جاتا ہے جو اچھی بیٹیاں یا اچھی مائیں بن پاتی ہیں ، وہاں مریم نواز جیسی خاتون بہت سی نوجوان لڑکیوں کیلئے مشعل راہ ہے ، اوراس ماڈرن پاکستان کی حقیقی تصویر ہیں جہاں خواتین روایات توڑ سکتی ہیں۔ اب تبدیلی کا وقت آگیا ہے، جس طرح ن لیگ تبدیل ہوگئی اسی طرح پاکستان بھی بدل رہا ہے، یہ اب ضیا کا پاکستان نہیں ہے، حالانکہ سیاہ قوتیں ہمیں دوبارہ اسی طرف گھسیٹنا چاہتی ہیں جہاں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے سر عام کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے۔