اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتارملزم سعید سومرو کی نظرثانی کی اپیل مسترد کردی، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری ملازم ہوکر آپ نے 32 ایکڑزمین، 3 فلیٹس اور گاڑیاں خریدیں، تین مرتبہ مختلف کمپنیوں کے شیئرز خریدے، کراچی میں پلاٹ خریدا اور ایک کروڑ روپے بینک میں جمع کرائے، سرکاری ملازم ہو کر آپ کے پاس اتنا خزانہ کہاں سے آیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آمدن سے زائد اثاثہ جات میں گرفتار ملزم سعید سومرو کی نظرثانی کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،درخواستگزار نے عدالت کے رو برو موقف اختیار کیا کہ میرے خلاف ریفرنس نہیں بنتا تھا،حقائق کے منافی فیصلہ دیا گیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نظرثانی اپیل میں ازسرنودلائل دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، نظرثانی اپیل میں ریکارڈکی غلطی کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 2 کروڑ روپے کا جرمانہ غیرقانونی طور پر معاف کیا،درخواست گزار نے کہا کہ میری التجا ہے مجھ سے انگریزی میں بات نہ کریں،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ڈویڑنل انجینئر رہ چکے ہیں،کیا آپ کو انگریزی نہیں آتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سعید سومرہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ پر اللہ کا بڑا فضل رہا،سرکاری افسر ہوکر آپ نے اتنی جائیدادیں کیسے بنالیں،درخواست گزار سعید سومرو نے کہا کہ میں کاروبار کرتا تھا،درخواست گزار نے کہا کہ میری حالت دیکھیں میں اب بھی کانپ رہا ہوں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو بالکل بھی کانپنے کی ضرورت نہیں،درخواست گزار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی وجہ سے نہیں کانپ رہا ہوں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سرکاری ملازم ہوکرآپ نے32 ایکڑزمین،3 فلیٹس اورگاڑیاں خریدیں، تین مرتبہ مختلف کمپنیوں کے شیئرز خریدے،کراچی میں پلاٹ خریدااورایک کروڑ روپے بینک میں جمع کرائے، سرکاری ملازم ہوکر آپ کے پاس اتنا خزانہ کہاں سے آیا، سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد سعید سومرو کی نظر ثانی اپیل مسترد کردی۔واضح رہے کہ نچلی عدالتوں سے سعید سومروکو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر جرمانہ اور سزا ہوئی تھی۔