counter easy hit

رشتے کرتے ہیں ہر پل میٹھا

Shahbano Mir

Shahbano Mir

قانونِ فطرت اٹل ہے جس پے زمانے کا تغیر و تبدّل اثر نہیں چھوڑتا ٬ چند مقررہ قائم و دائم رہنے والی فہرست میں ایک حرف ہے رشتے یہ ہو لفظ ہے جو انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی کچھ افراد کو اس سے منسوب کر دیتا ہے ٬ عمر بھر وہ ناراض ہو یا خوش انہیں چھوڑنا چاہے یا ان سے دور بھاگنا چاہے ان کی بے حسی سرد مہری کی وجہ سے ان سے چھٹکارہ پانا چاہے کترانا چاہے ہزار اور جتن کر لے٬ لیکن یہ مقرر ہی رہتے تھے رہتے ہیں اور رہتے رہیں گے

کیونکہ یہ رشتے ہیں جو اللہ نے بنائے ہیں اور ہماری پیدائش سے پہلے یہ دنیا میں ہمارے وجود نام کےساتھ جُڑے ہوتے ہیں٬ یہ اللہ کابنایا ہوا قانونِ فطرت ہے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ٬ دوسری طرف انسان اس دنیا کی رونقوں میں اپنے مفاد کے لیۓ ہمیشہ سے سرگرداں رہا ہے ٬ اس کامیابی کے حصول میں وہ کسی کو بیوقوف بناتا ہے تو کوئی اسے بیوقوف بناتا ہے ٬ مفادات کے کالے شیشوں کی اندھی عینک رشتوں کو بعض اوقات پرے کر کے ضرورت کے تعلق کو آگے لے آتی ہے لیکن روز ِ ازل سے یہی دیکھا گیا کہ ایسے بناوٹی خود ساختہ تعلقات ضرورت پوری ہونے پرخود بخود تہہ خاک جا سوتے ہیں تعلق ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ ضرورت ختم ہو جاتی ہے٬ تب ہر دو اطراف سے احساس ہوتا ہے کہ انہیں بیوقوف بنایا گیا٬

جبکہ رشتوں میں ایسا نہیں ہوتا یہاں کہیں خسارے ہیں تو کہیں صبر ہے تحمل ہے ٬ کہیں خود کو اپنی انا کو مار کے خاندان کا وقاربچانا ہے ٬ تو کہیں صبر ہے برداشت سے خود کو رشتوں کی مضبوط کیلئے قربان کرنا ہے٬ کہیں خودداری کا دعویٰ ہے٬ اور کہیں محبتوں کا پُرخلوص اظہار ہے ٬ ایک واقعہ ان دنوں رونما ہوا تو سوچا اس خشک اور مصنوعی طرز ِ زندگی میں جہاں ہر رونق جھوٹی٬ جہاں ہر ترقی مصنوعی ہے ٬ ایسے میں ایسی سچّی کھری شفاف محبت اور اخلاص کی بلند ترین مثال اگر ملی ہے تو کیوں نہ اسے ہر طرف پھیلایا جائے ٬ گزشتہ دنوں ہماری ایک دوست کو اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں اپنی چچا زاد بہن کو پیسے بھیجنے کا اتفاق ہوا ٬ پیسے بھیجنے کیلیے جب بینک پہنچیں تو پتہ چلا کہ ایک مخصوص حد ہے اس سے زیادہ نہیں بھجوائے جا سکتے ٬ انہوں نے بڑی رقم بھیج کر باقی ماندہ رقم دوسرے نام سے اپنی بہن کو بھجوا دی٬ دوسرے دن پیسے وصول ہونے پے ان کی بہن کی جانب سے ٹیکسٹ میسج آگیا

لیکن
اس میں رقم وہ درج تھی جو کم تھی ٬ میسج پڑھ کربڑی بہن نے لاپرواہی سے سوچا کہ آخر والی رقم کا لکھ کر کنفرم کر دیا گیا کہ رقم مل گئی ٬ خاندان میں روپے پیسے کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی تھی ہمیشہ محبتوں کا اہم کہا گیا ٬ وہی اثر ابھی تک دونوں جانب سے تھا٬ اسی سادگی اور لاپرواہی نے اس کہانی کو خوبصورت مُنفرد بنا دیا٬ آپس کی محبت اور اعتبار کا یہ عالم کہ نہ بھیجنے والی نے سوال کیا اور نہ وصول کرنے والی نے ٬ کچھ روز کے بعد بڑی بہن نے سوچا کہ جو سامان منگوانا ہے رقم اس سے زیادہ ہے لہٰذا فکر کی بات نہیں ٬
اسی لئے بڑے اطمینان سے چھوٹی بہن کو سامان کی طویل فہرست لکھوا دی٬
دونوں بہنوں کی گاہے بگاہے بات ہوتی رہی ٬ اور شاپنگ کی مکمل تفصیلات بڑی باریک بینی سے طے ہوتی رہیں٬

اسی دوران پاکستان والی بہن کے دو بیٹوں کی منگنیاں ہو گئیں بیرون ملک مقیم بہن نے کچھ مزید اشیاء کی شاپنگ کے لئے کچھ رقم وہ وہاں کسی رشتے دار کو دلوا دی ٬ یہ وہ وقت تھا جب چھوٹی بہن کہہ سکتی تھی کہ جو رقم دینے کا آپ کہہ رہی ہیں وہی تو بس مجھے ملے ہیں٬ یہ رقم میں انکو بھجوا دوں تو خود کیا کروں؟
لیکن اس نے کچھ نہیں کہا اور جو رقم وصول کی تھی وہ ویسے ہی دوسری جانب دے دی ٬ چھوٹی بہن نے شاپنگ کی لمبی چوڑی فہرست کو پڑھا اور تمام چیزیں خرید کر فہرست کے مُطابق مکمل کر لیں٬ بڑی بہن نے فون کر کے تصدیق کرنا چاہی کہ سب ٹھیک سے مکمل ہوگیا؟ رسمی طور پے اس نے سرسری انداز میں فون بند کرنے سے پہلے چھوٹی بہن سے کہا کہ اور پیسوں کی ضرورت تو نہیں؟

جواب میں جھجھکتے ہوئے چھوٹی بہن بولی کہ اتنی رقم اور چاہیے
یہ سن کر بڑی بہن کو تعجب ہوا اس کا خیال تھا کہ شاپنگ کے بعد بھی کچھ رقم موجود ہونی چاہیے٬ استفسار پر چھوٹی بہن سے یہ معلوم ہوا کہ انہیں تو صرف وہی رقم ملی جو بعد میں دوسری طرف دے دی گئی ٬ یہ سُن کر بڑی بہن کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی کہ یہ کیا ہوگیا؟ بینک والوں نے دو رقوم کی بابت نہیں بتایا٬ نجانے اب وہ رقم بینک والے دیتے ہیں یا متنازعہ بنا کر مسئلہ کھڑا کرتے ہیں کیونکہ بڑی رقم گزشتہ ایک ماہ سے بینک میں جوں کی توں پڑی تھی ٬ اور وہ چھوٹی رقم وہ لے کر گھر آگئے

چھوٹی بہن کئی سال پہلے سے قرآن سے مضبوطی کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے قرآن پاک کی تعلیمات کو سمجھ کر مکمل طور پے اپنی ذات کو عمل میں ڈھالنے والی یہ بہن بچوں کی منگنی کی سلامیوں سے ساری شاپنگ مکمل کر کے بڑی بہن کے سامنے لب کھولے بغیر یہ سوچ کر خاموش رہی کہ باجی کے پاس شائد پیسے نہیں ہیں تو بعد میں بھجوا دیں گی٬ موجودہ سنگین معاشرتی اطوار پے مبنی معاشرے میں ایک درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والی ٬ حق حلال کے ساتھ بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے والی اس بہن کے لئے یہ رقم بہت بڑی تھی لیکن اس نے بغیر جتلائے خندہ پیشانی سے ساری مشکل کا سامنا کیا٬

اصل میں قرآن کا سبق اس کو ارد گرد چلتے پھرتے لاکھوں انسانوں سے مختلف بنا گیا٬ کہ اپنے رشتے داروں کے حقوق کا بہت خیال رکھنا ہے٬ قطعہ رحمی کر کے اپنی زندگی رشتوں کے بندھن سے آزاد کر کے جینا بہت آسان ہے ٬ لیکن حقوق کی پُکار کی بجائے فرائض کی بجا آوری کے ساتھ زندگی گزارنا اس مہنگائی کے دور میں کس قدر دشوار ہے ٬ یہ ہر پاکستانی جانتا ہے٬ ایسے مشکل حالات میں اپنی کئی ضرورتوں کو قربان کر کے بڑی بہن کیلئے ایثار کرنے والی اللہ کے ہاں بہترین درجات پا گئی٬

صِلہ رحمی کی عظمت کو عملی طور پے نبھانا کس قدر مشکل ہے ٬ اس مشکل کو اس باعمل باہمت پیاری بہن نے اپنے عمل سے اس قدر سہل کر دیا ٬ بڑی بہن کے ہاتھوں کے طوطے حقیقت میں اُڑ گئے کہ وہ کبھی اپنی اس پیاری چھوٹی بہن کو تکلیف دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی٬ اس کی بہن نے کس خاموشی سے جزبہ ایثار کا مظاہرہ کیا اور قرآن پاک کی تعلیم کی عملی تفسیر پیش کی اُس کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں اسی وقت چھوٹی بہن کو نمبر دوبارہ لکھوایا اور اصرار کیا کہ جیسے ہی مُمکن ہو جا کر بینک سے پیسے لے آئے

الحمد للہ کوئی مسئلہ نہیں بنا پیسے گزشتہ ماہ سے بینک میں تھے بغیر کسی رد و قدح کے مل گئے ٬ لیکن آج بھی بڑی بہن کا دل خوشی اور مُسرت سے جھوم اٹھتا ہے جب وہ وقت یاد آتا ہے کہ اس دور میں جب بھائی بھائی کا گلا دس روپے کے لئے کاٹنے کو تیار ہے٬ جب خون پانی سے سستا ہے ٬ رشتوں کا تعلقات کا معیار انسان سے وابستہ ضرورت کی نوعیت پر ہے ٬ ایسے میں بہترین خاندانی روایات کا اور بہترین مومنہ کی صفات کا یہ عملی مُظاہرہ ہم جیسے لاکھوں بے عمل لوگوں کے لئے مشعِلِ راہ ہے ٬

آئیے قرآن سے جُڑیں اور ہم بھی ایسی قوت برداشت سوچ میں ایثار اور لبوں پے عظمتوں کے ایسے جامد قفل لگا کر دوسروں کے ساتھ ہر رشتے ہر تعلق میں ایسے خوبصورت نشانات ثبت کریں جو ہمارے جانے کے بعد بھی دل کی ذہن کی بنجر زمین کو زرخیز کر کے نئی اسلامی سچی شفاف پاکیزہ کامیاب معاشرت کی بنیاد داغ بیل ڈالے ـ تا کہ بعد میں آنے والے بھی زمانے کی بے حسی کا بے رحمی کا گِلہ کرنے کی بجائے خود ایسی محُّبت کی لازوال مثال بنیں ٬

رشتے محبتیں قربانیاں آج بھی اس ملک کے خمیر میں گندھے ہوئے ہیں٬ ضرورت صرف محسوس کرنے کی ہے اور اپنے اوپر تھوڑی سی محنت کر کے لینے کی بجائے دینے کی سوچ خود میں پیدا کرنے کی ہے ٬ ہم سب نے اپنی ذات میں یہ صفت پیدا کر لی تو یقین کیجیۓ
آج بھی
یہ رشتے کرتے ہیں ہر پل میٹھا
یہ رشتے کرتے ہیں ہر پل میٹھا

تحریر: شاہ بانومیر