تحریر: ممتاز ملک. پیرس
ویسے تو پاکستان میں کوئی بھی معاملہ یا حادثہ ہو جائے اسے کسی دوسرے حادثے سے ری پلییییس کر دیا جاتایے. تاکہ عوام کا غم کم کیا جا سکے . بجلی کو روئیں گے تو گیس کا رونا ڈلوا دیا جایئے گا ، گیس پر تڑپیں گے تو پانی کا مسئلہ پیدا کر دیا جائے گا . اور ہماری اسلام کی ٹھیکیدار مسلمان جماعتیں (مسلمان اس لیئے کہ وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان سمجھتے ہی کب ہیں ) مہنگائی پر تو میدان میں آئیں گی لیکن کتنی حیران کن بات ہے میں نے ان نام نہاد دینی جماعتوں کو کبھی کسی زناکار کے خلاف، قاتل کے خلاف ،تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف ، کاروکاری کے خلاف، وطن فروشووں کیخلاف، بچوں کے بدفعلی کے مجرمان کو پھانسی دلانے کے لیئے کبھی نہ تو کوئی جلسہ کرتے دیکھا، اور نہ ہی کسی مقام سے ان کی مذمت کی کوئی خبر سنی . یہ کیسی داڑھیاں ہیں ان کے چہرے پر جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی سنت کی کوئی جھلک ہی نہیں . کہیں حلیہ بنا کر اپنے آپ کو چھپانے کی مکروہ صیہونی سازش تو نہیں۔
ہمارے نبی نے تو بچوں اور خواتین کے جتنے حقوق اور ان کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے اور ان کے لیئے کئی مقام میں بار بار خداسے ڈرنے کا حکم سنایا ہے اس حساب سے تو ہمارے ملک کو بچوں اور عورتوں کے تحفظ کے لحاظ سے مثالی ملک ہو نا چاہیئے تھا .لیکن یہاں تو سینکڑوں خواتین تیزاب سے جھلسادی جائیں یا بے شمار بچے بدکارہوں کی بھینٹ چڑھ جائیں . بے غیرتوں اور بدکاروں کو.نہ تو سزا دلوانے کا مطالبہ سامنے آیاہے اور تو اور ان نیم ملااوں نے اسے برا کہنے کی بھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی . کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سارے واقعات میں اور خاص طور پر بچوں سے زیادتی کی واقعات میں یہ ہی سب سے زیادہ منہ پر داڑھی رکھ کر اپنے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرنے والے مجرمان ہی ملوث ہیں۔
ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں جو آدمی سب سے زیادہ بدکردار اور بدنام ہو جاتا ہے یا بدنامی کے کالے کام کرنے والا ہوتا ہے وہ اسے داڑھی رکھ کر چھپانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ سارا علاقہ اسے صوفی صاحب سمجھ کر اس پر اعتبار کرتا رہے اور یہ اس کی آڑ میں اپنے گناھ گارانہ کام کرتے رہیں . یہ بات سو فیصد لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی، لیکن 80% لوگ یہ ہی گل کھلا رہے ہیں جس کی وجہ سے 20%نیک لوگ بھی بدنام ہو رہے ہیں اور دنیا بھر کوہم اپنے ہی دین پر جگ ہنسائی کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں . ہمارے تمام نام نہاد علماء نے کہیں ان بدکاریوں پر بھی دین کے نام کی کلی چڑھانے کا تو نہیں سوچ رکھا . کیونکہ اگر یہ پنڈورا بکس کھلے گا تو انہیں ملاوں کے نام ہی سب سے زیادہ ملوث پائے جائیں گے . ہماری قبروں می کسی ملا نے ہمارا جواب نہیں دینا وہاں ہمارے اپنے ہی اعمال یا ہمیں بخشوائیں گے یا مروائیں گے . تو پھر انہیں دین کا ٹھیکیدار بنا کر ہم اپنے بچوں کو ان جیسے بدکارہوں کے آگے چارہ بنا کر کیوں پیش کر رہے ہیں . ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ ہمیں مرتد اور بے دین قرار دیکر ہم پر زندگی تنگ نہ کر دیں . لیکن ہمارے لیئے ان کا خوف خدا کے خوف پر بھی غالب آ گیا ہے کیا. . ؟؟؟؟؟۔
لوگوں نے مدرسوں میں بچے بھیجے تو شاید ہی کوئی بچہ اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے تک مکمل ذہنی تندرست ان کے مدرسے یا ادارے سے باہر نکلا ہو . . کوئی جسمانی یا ذہنی عارضہ اس بچے کیساتھ استاد کے تحفے کے طور پر جاتا ہی ہے . . ایسا کیا ہوتا ہے اس بچے کیساتھ کہ جس پر وہ باہر جاکر بدکار اور مجرم ہی بنتا ہے . جب اس صورت حال کو بہت دیر سے ہی سہی والدین نے بھانپ لیا اور گھروں پر بچوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا تو بھی پڑھانے تو مولوی صاحب نے ہی آنا ہوتا تھا تو بدکاریوں کیساتھ یہ ہی بچے قتل بھی ہونے لگے کہ اب تو پکا پکڑے جانے کا امکان موجود ہے لہذا قصہ ہی ختم کر کے ہی جاو . ان تمام لوگوں پر کیا توہین رسالت کا کوئی قانون نہیں لگتا۔
اگر نہیں لگتاہے تو لگنا چاہئیے، تاکہ اچھے اور برے لوگوں میں تمیز کی جا سکے اور جب تک کسی کا مکمل کردار سنت رسول کے مطابق نہ ہو اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محض نقالی کرنے کو بھی جرم قرار دیا جانا چاہیئے . کم از کم سو گواہ اس آدمی کے سابقہ دس سال کی گواہی دیں کہ یہ آدمی واقعی دین دار باحیا اور نیک و شریف ہے تب اسے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیئے کی نقل کی اجازت ہونی چاہیئے ۔
ہم آلو پیاز خریدتے ہوئے تو گھنٹوں بازار میں بحث کر لیں گے لیکن نبی کی سنت پر چار باتوں کی پابندی کا زور نہیں دے سکتے ،پھر بھی ہمارا دعوی ہے کہ ہم سے بڑا عاشق رسول کوئی نہیں ہے . اب جب ان آدھے ایمان والے لوگوں کے ہاتھوں پاکستان ریکارڈ برباد ہو ہی چکا تو اب تو آنکھیں کھول ہی لینی چاہیئں . اور اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہماری مسجد کا کوئی بھی امام ،خطیب یا مولانا ہماری مقامی گلی محلے یا علاقے کا ہی ہونا چاہیئے اور بال بچوں والا ہونا چاہیئے تاکہ اس کے جرم کر کے بھاگنے کے راستوں کو مسدود کیا جا سکے . یہ ہماری عورتوں اور بچوں دونوں کے تحفظ کے لیئے از حد ضروری ہے دین کا مذاق اب بند ہونا چاہیئے۔
تحریر: ممتازملک. پیرس