گزشتہ روز معلوم ہوا کہ فیض آباد دھرنے میں ڈندہ برداروں کی طرف سے پتھر باری کی زد میں آکر ایک نوجوان سپاہی اسرار احمد تنولی اپنی سیدھی آنکھ کھو بیٹھا۔ میں نے ان کی فون پر خیروعافیت دریافت کی۔ اس سے ابت کر کے معلوم ہوا کہ اس کا ہمت و حوصلہ اسکی جوانی سے بڑھ کر جوان تھا۔ یقیناً ایسے نواجوان ہمارے اصل ہیرو ہیں جو اپنے وطن کی خاطر اپنے جسم کا ایک ایک حصہ قربان کرنے کو تیار ہیں مگر دوسری طرف ہمارے مُلا حضرات ہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر نہ صرف پاکستان بلکہ امن، محبت اور بھائی چارہ سکھانے والے خوبصورت ترین دین اسلام کو بھی بدنام کررہے ہیں۔
انتہائی افسوس اور معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دین اسلام کو جتنا نام نہاد مُلاؤں نے بدنام کرکے نقصان پہنچایا ہے اتنا شائد ہی تاریخ میں کسی اور نے کیا ہو۔ دینِ اسلام میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مگر ہمارے کچھ مُلا حضرات خود کو تو بہت بڑا مسلمان گردانتے ہیں لیکن اپنے اس زعم میں وہ کسی غیرمسلمان کو تو دور اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو بھی اختلافِ رائے کی بنیاد پر کافر کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
مسجد سے جب “اللہ اکبر” کی صدا آتی ہے تو روح سجدہ ریز ہونے کو بے چین ہوجاتی ہے مگر جب یہی نعرہ تکبیرہ کسی گلی، کوچے یا بازار میں اٹھتا ہے تو جسم و جان خوف کے مارے کپکپانے لگتا ہے اور ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
ہماری کم عقلی کی انتہاء ہوگئی کہ مسلمانوں کے ہر نقصان اور فائدے میں ہمیں غیروں کی سازش نظر آتی ہے اور ہماری کم علمی کے باعث نام نہاد علماء ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے مذہبی جذبات سے علی الاعلان کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہےکہ جتنا اسلام تلقین سے پھیلا اتنا تلوار سے نہیں پھیلا۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ہماری اکثر مسجدوں کے منبر پر بیٹھے مُلا اپنی زبانوں کو بطور تلوار استعمال کررہے ہیں۔ تلوار کا زخم تو پھر بھی مٹ جاتا ہے مگر زبان کا زخم صدیوں نہیں مٹتا۔ ذرا سے اختلاف پر یہ لوگ کافر، مشرک اور بدعتی کے فتوے جڑ دیتے ہیں۔ بجائے اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے بریلوی، دیوبندی، شیعہ وغیرہ وغیرہ کہہ کر فرقہ پرست بن جاتے ہیں حالانکہ فرقہ پرستی سے قرآن کریم واضح طور پر منع کرتا ہے۔
یہ آیت پڑھیں۔
جب وه لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو تکبر اور تعصب اسے گناه پر آماده کر دیتا ہے، ایسے کے لئے بس جہنم ہی ہے اور یقیناً وه بد ترین جگہ ہے۔
قرآن ، سورت البقرۃ۔۔آیت 204.205
اختلافِ رائے امت محمدی ﷺ میں صحابہ کرام کے دور سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ اس کے بارے میں خود جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اختلاف رائے میری امت کے لئے باعث رحمت ہے مگر افسوس صدافسوس کہ ہمارے مُلاؤں نے اس رحمت کو زحمت میں بدل ڈالا ہے۔
علماء حق جو دین اسلام کے حقیقی وارث ہیں وہ اس چیز کو اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر بیچارے مُلا حضرات جو دینِ اسلام کے ٹھیکیدار ہیں، اور امت محمدیﷺ کو اپنے قول و فعل سے فرقہ پرستی میں دھکیلے ہوئے ہیں، ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔ ان کی اسی نہ سمجھی کی وجہ سے مسلمان بجائے متحد ہونے کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ریزہ ریزہ ہوئے اور فرقوں میں بٹ گئے۔ اس پر علامہ محمد اقبال نے فارسی میں بہت ہی خوبصورت اشعار کہےتھےکہ؛
دینِ حق از کافری رُسوا تر است
زانکہ مُلا مؤمن کافر گر است
کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد
ملت از قال و اقولش فرد فرد
مکتب و مُلا و اسرارِ کتاب
کورِ مادر زاد و نُورِ آفتاب
دینِ کافر فکر و تدبیر و جہاد
دینِ مُلاں فی سبیل اللہ فساد
اردو ترجمہ: آج دینِ حق یعنی اسلام کفار کے دین سے زیادہ رسوا ہے۔ اس کے ذمہ دار ہمارے مُلا ہیں۔ ہمارا مُلا مومنوں کو کافر بنانے پر لگا ہُوا ہے۔ مکتب، مُلا اور اسرار قرآن کا تعلق ایسا ہی ہےکہ جیسے کسی پیدائشی اندھے کا سُورج کی روشنی سے ہوتا ہے۔ آج کافر کا دین فکر اور تدبیرِجہاد ہے جبکہ مُلا کا دین فی سبیل اللہ فساد ہے۔
جو مُلا آج کل اپنے تقریروں میں کہتے ہیں کہ ہم قرآن کے بھی حافظ ہیں اور علامہ اقبال کے بھی حافظ ہیں، انہیں یہ بھی یاد کرلینا چاہئیےکہ اس وقت کے انہی جیسے مُلائوں نے شاعرِ مشرق پر کفر کے فتوے لگائے تھے۔ اسی طرح آج کل محب وطن پاکستانیوں کو غدار اور اسلام پسند پرامن مسلمانوں کو گستاخ کہاجاتا ہے۔
اسلام میں بالکل واضح ہے کہ اگر کسی سے گستاخی ہوجائے یا پھر وہ مرتد ہوجائے تو اسے تین دن کا وقت دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ سوچے کہ شائد اس سے ناسمجھی میں یہ سب کچھ ہوا ہو۔ اگرچہ تین دن بعد بھی وہ شخص اپنی بات پر قائم رہتا ہے تو پھر جاکر اسکی جزا و سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ بھی ریاست نے کرنا ہے، کسی ایک گروہ نے نہیں۔ ہر گروہ و مکتب خود ہی اپنے ہاتھ سے سزا و جزا کے فیصلے کرنا شروع ہوگئے تو پھر ریاست کا کیا کردار رہ جائے گا۔
دھرنا سرکار شاید یہی کچھ چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے اس عمل سے ثابت کیا کہ وہ عاشق رسولﷺ ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ہمارے پیارے نبیﷺ تو پورے دنیا جہاں کیلئے رحمت العالمین بنا کر بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے اپنی حیاتِ طیبہ میں امام بن اوبائی جیسے منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھائی کہ شائد اس وجہ سے اس کی بخشش ہوجائے حالانکہ آپﷺ کو پتا تھا اور اللہ تعالی بھی فرما چکے تھے کہ یہ منافق ہے اور تمہارے لیے اس کے اندر بغض بھرا ہے لہذا میں اسکی بخش نہیں کرونگا۔
گالم گلوچ دینے والے شخص کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ ایسا شخص ناپسندیدہ ہے۔ حتیٰ کہ خانہ کعبہ کو گرانا بڑا گناہ نہیں جتنا کسی کو ماں بہن کی گالی دینا ہے۔ عشقِ رسولﷺ کے نام نہاد دعوے کرنے والا کیسے کہتا ہے کہ وہ عاشقِ رسولﷺ ہے جبکہ اپنے قول سے تو وہ بالکل آپﷺ کی تعلیم کے برعکس نظر آتا ہے۔ اسی طرح فقہ میں آتا ہے کہ راستے میں اگر مسجد بھی رکاوٹ بننے لگے تو اسے شہید کردیا جائے مگر موصوف نے کئی روز تک ایک اہم شاہراہ کو مکمل بند کرکے رکھا۔ کیا اس کی دین اسلام میں اجازت ہے؟
سیاسی مخالفین پرکفر کےفتوے پہلےایک طرف سےلگائے جاتے تھے مگر اب اس میں بہت سارے لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ اب جو روایت چل پڑی ہے کہ کسی کےایمان پرشک کیاجائے مناسب نہیں۔ کوئی بھی تین ہزار کا مجمع جمع کر کے دبائو ڈال کر زبردستی استعفی لے اکیس کروڑ عوام کو ہرگز قابل قبول نہیں اگر بہت ہی شوق ہے تو پرامن طریقے سے الیکشن میں حصہ لیں، اور جیت کر دکھائیں پھر پتا چل جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔