تحریر: شاہ فیصل نعیم
وہ مذہب جس کی ابتدا ہی اِقراء سے ہوئی تھی آج اُس کا نام لینے والے علمی میدان میں بھی پسپا ہو چکے ہیں اگر ہمارے اقوال و افعال میں تضاد نا ہوتا تو آج بھی یہ دنیا چودہ سو سال پہلے والا منظر پیش کرتی جب مکہ و مدینہ وحی کے نور سے عرشِ معلی بنے ہوئے تھے۔
آقاۖ کی زبان ِمبارک سے ادا ہونے والے الفاظ کی کرنیں سلمان کو فارس سے صہیبکو روم سے آپۖ کے قدموں میں کھینچ لائیں کوئی قرن میں لطف پاتا رہا اور کوئی انگاروں پہ تڑپنا بھی عین عبادت خیال کرتایہ سب اُن کی ادائوں کا فیضان تھاجو بھی درِاقدس پہ جاتا جھولیوں فیض پاتا بِلا امتیازِمذہب پیمانہِ عدل اور علم کا فیضان سب کے لیے یکساں تھامسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی آقاۖ کے در پہ تشنگی ِعلم بُجھانے آتے تھے وہ ایک وقت تھا جب مسلمان دنیا کو ایک نیا اندازِ زندگی دے رہے تھے، نئی نئی قدروں سے زمانے کو آشنائی دِلا رہے تھے ،جب عرب سے لیکر سپین تک اسلام کا نور پھیل چکا تھا، مسلمان زمانے کی نئی نئی جہتوں سے آگاہی حاصل کر چکے تھے اور زمانہ اُن کا باجگزار تھا۔
پھر ایک وقت آیاجب مسلمانوں نے علم کو چھوڑااور عیش وعشرت کے بھنور میںایسے پھنسے کے ابھی تک کنارے کی تلاش میں سرگرداں ہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمانوں کی کشتی جہالت کی تاریکیوں میں دھنستی جا رہی ہے اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ شاید کوئی ناخدا آئے اور ہمیں جہالت کے اس بھنور سے نکال باہر کرے۔یہ حال کسی ایک اسلامی ملک کا نہیں بلکہ ہر اسلامی ملک کسی نا کسی لحاظ سے تباہی و بربادی کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔
اگر ہم وطن عزیز کی تعلیمی صورتِ حال پہ نظر دوڑائیں تو اس وقت پاکستان میں 108یونیورسٹیاں ہیں جہاں متلاشیانِ علم اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں اُن میں سے کچھ ہی ایسے ہیں جو علم پا کے واپس لوٹتے ہیں ورنہ اکثر تو دورانِ تعلیم ہی کسی دوشیزہ کو مسندِ قلب پہ بیٹھا کر یونیورسٹی کو خیر آبا د کہہ دیتے ہیں اور اپنی نئی دنیا آباد کرنے نکل پڑتے ہیں ۔ اگرہم پاکستان میں موجود یونیورسٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ان 108 میں سے صرف ایک یونیورسٹی ایسی ہے جو دنیا کی پہلی 500 یونیورسٹیوں کی فہرست میں نظر آتی ہے اور اگر ہم ایشیا کی بات کریں تو ایشیا کی پہلی 100یونیورسٹیوںمیں پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔
پتاہے ایساکیوں ہوا؟ جب ہمارے حکمران قومی وسائل کو محبوبہ بیوی کی یاد میں تاج محل بنوانے، اپنی ہر ن کی یاد میں ہرن مینار بنوانے،مرنے کے بعد ہڈیوں کو محفوظ کرنے کے لیے مقبرہِ جہانگیر بنوانے اور اپنے نفوس کو ناز و نعم سے رکھنے کے لیے اعلیٰ و ارفعٰ قلعے و محلات تعمیر کروانے میں اندھا دھند صرف کررہے تھے اُس وقت اہلِ مغرب اپنی تمام تر پستیوں کے باوجود تعلیمی ادارے بنوا رہا تھا تاکہ اگر وہ نہیں تو ان کے بعد آنے والی ان کی نسلیں ان سے فیض پاکر اقوامِ عالم کی صف میں ایک مقام حاصل کر سکیں اور پھر ایسا ہی ہوا آج یورپ اور امریکا ترقی کی جس معراج پر پہنچ چکے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے آج اہلِ مغرب کو اپنے مادرِعلمی پہ ناز ہے دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ علم پانے امریکا اور یورپ جاتے ہیں۔
آج سے چودہ سو سال پہلے بھی لوگ علم کا فیض پانے کے لیے اک منزل کا رُخ کرتے تھے لیکن اُس وقت مادرِ علمی صفہ کا چبوترہ تھا اور اُستاد آمنہ کا لعلیۖ تھا لیکن آج منزل کوئی اور ہے درسگاہیں کوئی اور ہیں اور سکھانے والے امریکا اور یورپ ہیں ۔ آج ہمیں ضرورت ہے نئے تعلیمی اداروں کے قیام کی اور اعلیٰ نظامِ تعلیم کی چاہے ہم اس سے کچھ حاصل نا کر سکیں لیکن امیدِ واثق ہے کہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں ان سے فیض پا کر اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر لیں گی پھر ہر سو علم کے اُجالے ہوں گے پھر نئے نئے الپ ارسلاں پیدا ہوں گے اور پھر ایک وقت آئے گا جب مسلمان پوری دنیا کے پاسباں بن جائیں گے۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم