تحریر: نجیم شاہ
چند سال قبل یورپ میں اسلام کے اثر و نفوذ کے حوالے سے ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر بہت مقبول ہوئی، جسے کروڑوں ناظرین نے دیکھا۔ مسلم ڈیمو گرافکس کے نام سے جاری ہونے والی اس ویڈیو میں چمکدار تصاویر اور ڈرامائی موسیقی کی مدد سے کچھ حیران کن دعوے کیے گئے، جن کے مطابق یورپ میں آنے والے چند عشروں میں اسلام اکثریتی آبادی کا مذہب ہوگا۔ اس ویڈیو کے مطابق فرانس کی بیس سال یا اس سے کم عمر کی تیس فیصد آبادی مسلمان ہے اور مسلمان خاندانوں میں شرح پیدائش میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے فرانس آنے والے چند برسوں میں اسلامی جمہوریہ بن جائے گا۔ ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا ہے
برطانیہ میں اَسّی کے عشرے کے آغاز سے اب تک مسلم آبادی میں تیس گنا اضافہ ہوا ہے،جبکہ جرمنی ، نیدر لینڈ اور دیگر بہت سے یورپی ممالک میں اسلام کے پھیلائو بارے دلچسپ دعوے بھی اس ویڈیو میں شامل ہیں۔ امریکا میں موجود بااثر صیہونی ٹولے اور تمام اسلام مخالف قوتوں کی کارستانیوں کے باوجود میڈیا میں حیرت انگیز رپورٹس آ رہی ہیں، جس کے مطابق امریکا میں اسلام کی مقبولیت کا گراف نیچے نہیں بلکہ اوپر جا رہا ہے۔ قرآن کریم کی بے حرمتی اور اسلام مخالف فلم کے بعد سے غیر مسلم امریکیوں کے اسلام کی طرف میلان میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق مغرب میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور کم و بیش ایک لاکھ برطانوی مسلمان ہو چکے ہیں، سالانہ 5200 برطانوی حلقۂ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔یورپ اور امریکا میں مخالفانہ جذبات کے باوجود اسلام وہاں تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب بن گیا ہے۔
یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس سے مغرب کو یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ کہیں آنے والے چند عشروں میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب نہ بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اسلام مخالف فلمیں، پیغمبر اسلام کے کارٹون بنا کر اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ فرانس کے جریدے چارلی ایبڈو کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف دوسری بار کی گئی ناپاک جسارت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پچیس سالوں کے دوران فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔فرانسیسی وزارت داخلہ میں اسلامی امور کے سربراہ بیرنار گوڈار کے مطابق فرانس میں موجود ساٹھ لاکھ مسلمانوں میں سے تقریباً ایک لاکھ تعداد اِن مسلمانوں کی ہے جنہوں نے سال 2014ء میں اسلام قبول کیا
جبکہ 1986ء میں تعداد پچاس ہزار تھی۔ اب فرانس میں پیش آنے والے تازہ واقعات کی طرف آتے ہیں۔ 7جنوری 2015ء کو فرانس میں متنازع جریدے چارلی ایبڈو پر حملہ ہوتا ہے جس میں چیف ایڈیٹر سمیت بارہ افراد کی ہلاکت بتائی جاتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد دنیا بھر سے چالیس سے زائد ممالک کے رہنمائوں نے فرانسیسی حکومت اور میگزین کی انتظامیہ سے اظہارِ یکجہی کیا۔ یہ واقعہ کیوں رونما ہوا اور اس کے پیچھے کونسی قوتیں متحرک تھیں اس کا جواب ترکی کے وزیر سیاحت و ثقافت عمر سالک کے ایک سرکاری تقریب میں دیئے گئے بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر جن لوگوں نے حملہ کیا، ہم غیر مشروط طور پر اور علانیہ اس کی مذمت کرتے ہیں
خواہ ان کی شناخت یا قومیت کچھ بھی ہو، اس واقعے سے یورپ میں اسلام اور غیر ملکی مسلمانوں کے خلاف نفرت میں یقینا اضافہ ہوگا، اور یہ عین وہی صورتحال ہے جو حملہ آور پیدا کرنا چاہتے تھے”۔ ترک وزیر نے اپنے مذمتی بیان میں اِس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ یہ اسلام دشمن طاقتوں کی تازہ سازش ہے جس کا مقصد یورپ میں پہلے سے پیدا شدہ اسلام مخالف ماحول کو مزید گرمانا تھا اور حملہ آور یا انہیں استعمال کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کوئی مسلمان یہ کام نہیں کر سکتا۔ اگر حملہ آوروں میں کچھ نسلی مسلمان بھی رہے ہوں تو وہ ان ہی کے تیار کردہ ہیں جس طرح نام نہاد نائن الیون کیلئے تیار کئے گئے تھے یا دیگر ملکوں میں بھی تیار کئے جاتے ہیں۔
عمر سالک کا یہ جرأت مندانہ بیان اس لئے بھی اہم ہے کہ وہ ایک اہم مسلم ملک کے وزیر ہیں، ورنہ مسلم ممالک کی حکومتوں اور او آئی سی کا رویہ تو یہ ہے کہ وہ ان سازشوں کے خلاف زبان تک نہیں کھول سکتے۔ کسی مسلم حکمران میں اتنی جرأت بھی نہیں ہے کہ وہ ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کر سکے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے خلاف جس قدر غلط پروپیگنڈہ ہوا کسی دوسرے مذہب کے خلاف نہیں ہوا۔ چارلی ایبڈو جریدے پر حملے کی سازش کے بعد دوبارہ سے پیغمبر اسلام کے کارٹون شائع کرنے کی ناپاک جسارت کا مقصد بھی تیزی سے پھیلنے والے اس مذہب کو بدنام کرنا اور اس کے اثر و نفوذ روکنا تھا لیکن اسلام کی یہ بھی ایک خصوصیت ہی ہے کہ اس کے خلاف جس قدر پروپیگنڈہ ہوا اتنا ہی پھیلتا اور ترقی کرتا گیا اور یہ اسلام کے سچے اور الٰہی دین ہونے کا ایک ثبوت ہے۔
تحریر: نجیم شاہ