counter easy hit

دینی تعلیم

Religious Educational

Religious Educational

تحریر: پیر محمد عثمان افضل قادری
سوال: رقوم کی منتقلی کیلئے بینک ڈرافٹ اور منی آرڈر کا استعمال جائز ہے؟

جواب: رقم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کیلئے بینک ڈرافٹ، منی آرڈر اور چک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے بارے میں کتب میں ہے کہ وہ مکہ میں تاجروں سے نقد لے لیا کرتے تھے اور کوفہ اور بصرہ میں ادائیگی کا تحریری وثیقہ لکھ دیتے تھے۔
حوالہ: ”المبسوط” جلد نمبر 14، صفحہ 36 تا 37۔

سوال: محمد بشیر مرحوم دو لاکھ روپے کی جائیداد چھوڑ کر گئے ہیں۔ اب یہ جائداد درج ذیل افراد میں کس طرح تقسیم ہوگی: سائل (بیٹا) اور تین بیٹیاں۔

جواب: آپکے والد صاحب نے جو جائیداد چھوڑی ہے شرعا اسے ”ترکہ” کہتے ہیں۔ اس میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز وتکفین کے اخراجات پھر اگر ان پر قرض ہو تو وہ ادا کیا جائیگا۔ تیسرے نمبر پر اگر انہوں نے کوئی وصیت کی ہو تو اسے تہائی جائیداد میں سے پورا کرنا ضروری ہے۔ باقی جو کچھ بچے گا وہ وراثت ہے اور اسے ورثا میں شرعی قاعدے کے مطابق یوں تقسیم کیا جائیگا:
محمد بشیر میت
ایک بیٹا 3 بیٹیاں
بیٹے کو دوحصے ہر بیٹی کو ایک ایک حصہ
بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی کل
2 1 1 1 = 5

نوٹ: شریعت نے مرد کو عورت کی نسبت دگنا حصہ اس لئے دیا ہے کہ شرعا رہائش، لباس اور کھانا پینا مرد کے ذمہ ہے (جیسے بیوی کے اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں، بیٹی کا نفقہ باپ کرتا ہے وگرنہ بھائی، ماں کی ضرورتوں کا خیال بیٹے کیلئے باعث اجر واہمیت کا حامل ہے)۔ لہذا دین اسلام نے عورت کے اخرجات مرد کے ذمہ مقرر فرماکر اور اس کیساتھ ساتھ خواتین کو حق وراثت عطا فرما کر مزید مہربانی فرمائی ہے

سوال:
زید نے ایک سال کی عمر میں اپنی دادی کا دودھ پیا تھا، تو کیا زید کا نکاح اپنے حقیقی چچا کی بیٹی سے جائز ہے؟

جواب: ناجائز ہے۔ کیونکہ رضاعی ماں کے تمام اصول (ابا ؤ اجداد) وفروع (اولاد اور اولاد کی اولاد) اس پر حرام ہیں۔ نیز زید کا حقیقی چچا اب اس کا رضاعی بھائی بھی ہے لہذا رضاعی بھائی کی اولاد سے نکاح درست نہیں ہے۔
حوالہ: ”فتاویٰ عالمگیری” جلد: 1، صفحہ 321، مصر۔

سوال: عقیقہ کے متعلق رہنمائی فرمائیں

جواب: بچے کی پیدائش کی خوشی میں شکرانے کے طور پر جو جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ عقیقہ کہلاتا ہے۔ شرعا یہ مستحب ہے۔ اس کیلئے ساتواں دن بہتر ہے، اگر ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب میسر ہو کریں سنت ادا ہوجائے گی۔ لڑکے کیلئے دو بکرے اور لڑکی کیلئے ایک بکری ذبح کی جائے یعنی لڑکے میں نر جانور اور لڑکی میں مادہ مناسب ہے، اس کے برعکس میں بھی حرج نہیں۔ اور اگر دو نہ ہوسکیں تو لڑکے میں صرف ایک بکرا کرنے میں بھی حرج نہیں۔ اگر گائے بھینس ذبح کریں تو لڑکے کیلئے دو حصہ اور لڑکی کیلئے ایک حصہ کافی ہے۔ قربانی میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے۔ عقیقہ کے جانور کیلئے بھی وہیں شرطیں ہیں جو قربانی کے جانور کیلئے ہیں۔ عقیقہ کا گوشت غربا، رشتہ داروں اور دوستوں کو پکا کر یا بغیر پکائے یا بطور ضیافت ودعوت کھلایا جا سکتا ہے اور یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔ نیک فالی کیلئے ہڈیاں نہ توڑیں تو بہتر ہے اور توڑنا بھی ناجائز نہیں۔ عقیقہ کا گوشت ماں باپ دادا دادی وغیرہ سب کھا سکتے ہیں۔ عقیقہ کی کھال کا حکم قربانی کی کھال والا ہے۔

سوال: معذوری کی صورت میں مصنوعی اعضا لگوانے کا شرعی حکم کیا ہے؟ ایسی صورت میں وضو وغسل کیسے ہوگا؟

جواب: کسی انسانی عضو کے ضائع ہوجانے کی صورت میں اس جگہ مصنوعی عضو لگایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح ابن حبان کی کتاب الزینة والتطیب میں… جامع ترمذی کی کتاب اللباس میں… سنن نسائی کی کتاب الزینة من السنن میں… سنن ابوداؤد کی کتاب الخاتم میں… مسند احمد کی کتاب حدیث عرفجة میں حضرت عرفجة بن اسعد کے متعلق ہے:
”قطع انفہ یوم الکلاب فاتخذ انفا من ورق فانتن علیہ فامرہ النبی ۖ ان یتغذ انفا من ذہب”

ترجمہ: ”ان کی ناک جنگ کلاب میں کٹ گئی، انہوں نے چاندی کی ناک بنوا کر لگوائی تو اس میں بدبو پیدا ہوگئی، پس رسول اللہۖ نے انہیں سونے کی ناک لگوانے کا حکم دیا۔” جبکہ وضو وغسل کا حکم یوں ہے کہ اگر مصنوعی عضو کی بناوت اس طرح ہے کہ آپریشن کے بغیر اسے علیحدہ کرنا ممکن نہیں تو اس کی حیثیت اصل عضو کی سی ہے، اور غسل میں اس پر پانی پہنچانا ضروری ہوگا۔ اور اگر اعضائے وضو میں سے ہو تو وضو میں وہاں پانی پہنچانا ضروری ہوگا۔ لیکن اگر اس عضو کی نوعیت اس طرح ہے کہ اسے آسانی سے علیحدہ بھی کیا جاسکتا ہو اور لگایا بھی جاسکتا ہو تو پھر غسل کے وقت، اور اگر اعضائے وضو میں سے ہو تو وضو کے وقت اسے جدا کر کے جسم کے اصل حصہ پر پانی پہنچانا امر لازم ہے۔

سوال: حالت حمل میں طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟ شرعی دلیل درکار ہے؟

جواب: حالت حمل میں طلاق دینا اگرچہ بے رحمی اور بے مروتی ہے، لیکن طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید سورہ طلاق آیت نمبر 4میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”واولٰت الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن۔”

ترجمہ: ”اور حاملہ عورتیں (جنہیں طلاق ہوجائے) ان کی عدت وضع حمل ہے۔”
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حالت حمل میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، اسی لئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حاملہ مطلقہ کی عدت بیان فرمائی ہے۔ نیز حدیث پاک میں ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دیدی، تو رسول اللہۖ نے اسے جائز رکھا اور فرمایا:
بلغ الکتاب اجلہ

حوالہ: ”سنن بیھقی” کتاب العدد، جز: 11، صفحہ: 384۔
سوال: امانت پر منافع کس کا ہے؟

جواب: امانت کی رقم پر جائز طریقے سے ملنے والا منافع اصل مالک کا ہوگا

Muhammad Usman Afzal

Muhammad Usman Afzal

تحریر: پیر محمد عثمان افضل قادری
naikabad@gmail.com