برمنگھم (ایس ایم عرفان طاہر سے) مدارس نہیں بلکہ یونیورسٹیاں جہالت، گمراہی اور بد اخلاقی پھیلانے والی نرسریاں ہیں ، حقیقی اسلامی تعلیمات اور شریعیت سے نا بلد افراد ہی انتہا پسندی ، دہشتگردی، شر انگیزی، بد امنی اور شدت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، پاکستانی قوم کے امیر المجا ہدین چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ہیں جنہو ں نے انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے اہم آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔
ان خیالا ت کا اظہا رممتاز مذہبی سکالر و روحانی شخصیت پیر ذادہ محمد عدنان قادری سجا دہ نشین آستانہ عالیہ لنڈی کوتل نے نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طا ہر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہو ئے کیا ۔ اس موقع پر چیئر مین مسلم ہینڈز برطانیہ صاحبزادہ پیر سید محمد لخت حسنین شاہ ، امام شاہد تمیز انچا ر ج ضیاء الامہ سنٹر بو زلے گرین، نا صر رانا اور دیگر بھی انکے ہمراہ موجود تھے ۔ انہو ں نے کہاکہ پاکستان کے اندر سرفہرست تو انگریزی اور دینی تعلیم کا سب سے بڑا فرق ہے اور اسکے بعد دینی و عصری تعلیم کے نصاب اور اصول و ضوابط میں بھی خاصی تبدیلی پائی جا تی ہے۔
انہو ں نے کہاکہ مدرسہ میں پڑھنے والا طالب علم درس نظامی کا کورس 8 یا 9 سال میں مکمل کر کے گر یجویٹ ہوتا ہے جبکہ یو نیورسٹی کے طالب علم کے لیے ایک محدود سا کورس ہو تا ہے اسی طرح جو سہولیات اور ماحول یو نیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے وہ مدارس کے اندر میسر نہیں آتا ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ زیا دہ تر یو نیورسٹیوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے ان کے لیے ایک مخصوص بجٹ کا انتظام کیا جا تا ہے یو نیوسٹی کے اساتذہ کو طالب علم عزت دیں نہ دیں انہیں لا کھوں روپے تخواہ ما ہانہ طے شدہ وقت کے مطابق پہنچ جاتی ہے۔
جبکہ مدارس کے طلباء کو نہ تو حکومت کی طرف سے کوئی خا طر خواہ سپورٹ حاصل ہو تی ہے اور نہ ہی انہیں مدارس کے اندر اتنا عمدہ ماحول مہیا کیا جا تاہے اسی طرح مدارس میں پڑھا نے والے اساتذہ جو شب و روز اپنا خون جگر پگلا کر طلباء و طالبات کو دینی تعلیم سے روشناس کرتے ہیں تو ان کی محدود سی خدمت کی جاتی ہے جس سے وہ مشکل سے گزر اوقات کر پا تے ہیں با وجود اسکے کے یو نیورسٹیوں کے اساتذہ اور طالب علموں پر لاکھوں کا بجٹ خر چ کیا جا تا ہے مدارس کے طلباء دینی تعلیم کے حصول کے بعد عملی زندگی میں اپنا موئثر کردار ادا کرتے ہیں لیکن یو نیورسٹی کے طا لب علم فارغ ہو نے کے بعد ملک و قوم دونوں کے لیے بوجھ محسوس کیے جا نے لگتے ہیں ۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کون اپنی ذمہ داری پو ری ایما نداری اور دیا نتداری سے نبھا رہا ہے۔
انہو ںنے کہا کہ لا تعداد یو نیورسٹیوں کے وجود کے باجود بھی ملک کے اندر تعمیروترقی اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بیرون ممالک سے مدد حاصل کی جاتی ہے ڈاکٹری تعلیم کے باوجود لوگوں کو اچھے علاج معالجہ کے لیے دوسرے ممالک میں بھیجا جاتا ہے بجلی پیدا کرنے ، سڑکیں بنا نے اور ٹرین چلا نے کے لیے بھی دیگر ممالک کے انجنیئر ز سے استفادہ حاصل کیا جا تا ہے تو پھر اس تعلیم کا کیا فائدہ جس سے عملی زندگی میں کچھ آئوٹ پٹ نہ لیا جا سکے ۔ انہو ں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہو ئے کہاکہ جن مدارس اور دینی درسگاہوں پر انتہا پسندی پھیلا نے اور دہشتگرد پیدا کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے تو انکی مکمل طور پر جا نچ پڑتا ل ہونی چا ہیے اور منفی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو منظر عام پر لا یا جا ئے اسی طرح علماء دین کو بھی چا ہیے کہ مدارس کے طلبا ء کے لیے تیار کردہ نصاب میں جدت لائی جا ئے اور اسکا دورانیہ مزید مختصر کیا جا سکتاہے۔
انہو ں نے کہاکہ ایسے اسلامک اداروں کا احتساب ضرور ی ہے جو انتہا پسندی دہشتگردی اور تعصب کو فروغ دے رہے ہیں ۔ انہو ں نے کہا کہ جو لوگ آج دنیا میں شر انگیزی اور فتنہ پروری کو فروغ دے رہے ہیں رسول اکرم ۖ نے انکے حوالہ سے بہت پہلے وضاحت فرما دی تھی 100 سے زائد احادیث ایسے نام نہا د مسلمانوں کے حوالہ سے موجود ہیں جو انفرادی جہا د کو شریعیت اور خلافت کا نام دے رہے ہیں یہ درحقیقت میں خوارج ہیں جن کے خلا ف جنگ اور تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال میں لانا ہما را فرض بنتا ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ اسلام میں جنگ ریاست یا حکومت کی سرپرستی میں لڑی جا تی ہے جس جہا د کا آغاز سریا شام اور عراق میں کیا گیا ہے وہ درحقیقت فساد ہے۔
انہو ں نے کہا کہ جہا د اسی وقت فرض ہوتا ہے جب سرکا ری سطح پر اس کا اعلان کیا جا ئے انفرادی جہا د کی اسلام کے اند ر سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ انہو ں نے کاکہ جو جہا د آپریشن ضرب عضب کے نام سے مسلمانوں کے حقیقی امیر المجا ہدین چیف آف آرمی سٹا ف اسلامی جمہو ریہ پاکستان جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کیا گیا ہے یہی اصل جہا د اور عمل ہے جس کی حمایت قوم کا ہر بچہ بوڑھا اور جوان بھرپور انداز میں کرتا ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ برطانیہ کے اندر آباد نوجوان نسل جو اپنی ضروریا ت کی چیزیں پوری کرنے کے لیے انٹرنیٹ اور دیگر ٹیکنالوجی کے زریعہ سے مکمل چھان بین کرتی ہے تو انہیں اس بات کا شعور اور ادراک بھی لازم ہونا چا ہیے کہ اصل دینی تعلیمات اور احکاما ت کیا ہیں محض سوشل میڈیا اور چند نام نہاد جہا دیوں کے کہنے پر انکا دوسرے ممالک کی طرف جانا درست نہیں ہے۔
انہو ں نے کہا کہ سچی لگن اور دل میں کسی معاملے کو سمجھنے کے لیے جستجو ہو تو روشنی مل ہی جا تی ہے اسکے لیے مشاہدے اور تحقیق کو اپنانا ہو گا جب اپنے اندر سے ہی فتور پیدا ہو تو پھر اس پر کسی دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خود کو دوسری اقوام کے سامنے سرخرور اور باوقار بنا نے کے لیے ہمیں عملی اقداما ت اٹھا نے ہوں گے ان تعلیمات کو اپنانا ہو گا جن کا حقیقی اسلام سے تعلق ہے اور ایسی تمام منفی سرگرمیوں سے اجتناب کرنا ہو گا جس سے ہما ری دنیا و آخرت کے خراب ہو نے کا خدشہ ہے۔