counter easy hit

بیورو کریٹ کام نہ کرے نکال دیں ۔۔۔ حذیفہ رحمان

لاہور (ویب ڈیسک) آپ ریاست کے ملازم ہیں اور عوام کے خادم ہیں،آپ نے پولیٹکل ماسٹر نہیں بننا۔آج بھی قائد کے یہ الفاظ امروز کابینہ ڈویژن کی راہداریوں میں گونجتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔مگر ہمارے پولیٹکل باسز ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ سول افسران پولیٹکل ماسٹر بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔نامور کالم نگار حذیفہ رحمان روزنامہ جنگ میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آج ملک میں تحریک انصاف کو حکومت سنبھالے ہوئے تقریباً چار ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔اقتدار میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان دعویٰ کرتے تھے کہ وہ پنجاب پولیس کو غیر سیاسی بنائیں گے ،سرکاری افسران کی تعیناتیاں میرٹ پر کی جائیں گی۔کسی بیوروکریٹ کو ذاتی پسند نا پسند پر تبدیل نہیں کیا جائیگا۔مگر آج ایسا نہیں ہے۔افسران کو ذاتی پسند نا پسند کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔اچانک افسران کے تبادلے اور پھر چند گھنٹوں بعد منسوخ کردئیے جاتے ہیں۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب انتظامی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بہتری کے بجائے مزید خرابی پیدا ہورہی ہے۔گزشتہ دس سال کے دوران مرضی پر ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔مگر آج متعدد اضلاع میں چن چن کر من پسند تھانیداروں کو ایس ایچ او تعینات کیا جارہا ہے۔ڈی ایس پی کی تعیناتیوں میں آئی جی آفس کی سفارشات کو نظر انداز کرکے سیاسی سفارشوں کو اہمیت دی گئی ہے۔یہی اقدامات سرکاری افسران کو پولیٹکل ماسٹر بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ آج کے قومی اخبارات کی شہ سرخی ہے کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ’’جو بیوروکریٹ کام نہ کرے، نکال دیں‘‘ اس بیان کے کئی مطلب اخذ کئے جاسکتے ہیں۔اگر گزشتہ چار ماہ کے واقعات کو دیکھا جائے تو آئی جی پنجاب،آئی جی اسلام آباد،ڈی پی او پاکپتن،ڈی سی گوجرانوالہ،ڈی پی او سیالکوٹ سمیت درجنوں جیتی جاگتی مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے کام نہیں کیا ،انہیں نکال دیا گیا ۔مگر یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے کو نسا کام نہیں کیا۔سول افسران کسی بھی حکومت کی آنکھیں او ر کان ہوتے ہیں۔مگر جب آنکھوں اور کانوں کو ہی ناکارہ کردیا جائے تو پھر تصور کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کیسی ہوگی۔ پنجاب کو منی پاکستان کہا جاسکتا ہے۔وفاقی حکومت کی کارکردگی کا 90فیصد دارومدار پنجاب حکومت کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔مگر پنجاب میں حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔وزیراعلیٰ ہاؤس،اسپیکر ہاؤس،گورنر ہاؤس اور کچھ ’’غیرسیاسی‘‘ گھروں سے بھی احکامات جاری ہوتے ہیں۔چیف سیکرٹری آفس بھی پریشان ہوجاتا ہے کہ کس کی سنیں اور کس کی نہ سنیں۔ایک ہی دن میں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر پنجاب اور ڈی آئی جی پٹرولنگ کو صوبہ بدر کردیا جاتا ہے اور کوئی وجہ سامنے نہیں آتی۔دلچسپ طور پر صوبہ بدری کے احکامات تین ،چار دن پرانی تاریخوں میں کئے جاتے ہیں۔منطق سمجھ نہیں آتی۔وزیراعلیٰ ہاؤس کو گلہ ہے کہ آئی جی آفس گورنر صاحب کی زیادہ سنتا ہے

اور سی ایم سیکرٹریٹ کے احکامات پر کان نہیں دھرتا ۔اسی طرح چیف سیکرٹری پنجاب کے حوالے سے بھی وزیراعلیٰ ہاؤس نالاں نظر آتا ہے کہ ان کی اسپیکرپنجاب اسمبلی سے زیادہ قربت ہے ۔ایسے میں صوبے کا ہر افسر بے چین ہے۔چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔پورے صوبے میں کوئی چین آف کمانڈ نہیں ہے۔آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی انتہائی ایماندار اور شریف انسان ہیں۔پولیسنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں مگر ایسے حالات میں کوئی بھی آئی جی کام نہیں کرسکتا۔تبدیلی کی لہر کے نتیجے میں آئی جی پنجاب بننے والے سلیمی صاحب پر بھی تبدیلی کے سائے منڈلا رہے ہیں۔اگر ایسا کچھ کیا گیا تو یہ نامناسب عمل ہوگا۔چند ماہ کے دوران تیسرے آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا فورس پر برا اثر پڑے گا۔بیوروکریسی میں بددلی مزید بڑ ھ جائے گی۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔اگر پنجاب میں ناکامی ہوئی تو پھر ہاتھ کچھ نہیں رہے گا۔پنجاب میں غیر معمولی کارکردگی اور سخت محنت کی ضرورت ہے۔عمران خان جس پر بھی اعتماد کریں اسے مکمل بااختیار بنائیں۔اگر وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے نتائج لینا چاہتے ہیں تو ان کی ٹانگیں کھینچنے والوں کے خلاف ایکشن لیں۔اگر یہ سلسلہ آئندہ چند ہفتوں میں نہ
رک سکا تو پنجاب میں بہت بڑا بحران پیدا ہوجائے گا۔ایک ایسا بحران جس سے جہانگیر ترین اور غیر سیاسی دوست بھی نہیں نپٹ سکیں گے۔پنجاب پاکستان کا دل ہے ،اگر دل کا نظام متاثر ہوا تو پھر جسم کے دیگر اعضاء کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔عین ممکن ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے قریبی لوگ انہیں حقائق بتانے سے اجتناب کرتے ہوں مگر میری وزیراعظم سے دست بستہ گزارش ہے کہ بالا حقائق کی تصدیق کے لئے اسپیشل برانچ اور آئی بی کی مدد لے لیں۔تمام صورتحال واضح ہوجائے گی۔ملک میں اس وقت گورننس کی صورتحال بہت نازک ہے۔سیاسی حکومت کی انتظامی امور پر گرفت بہت کمزور ہے۔من پسند تعیناتیوں کے حوالے سے حساس نوعیت کی شکایات منظر عام پر آرہی ہیں۔اگر افسران کے تقرر و تبادلوں میں سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پھر تبدیلی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔معاشی طور پر ڈسے ہوئے عوام مزید مایوس ہوجائیں گے۔ریاست پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔میرٹ اور شفافیت کا دعویٰ کرنا بہت آسان ہے ،مگر اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ آج جو لوگ حکمرانوں کو من مانیوں کے مشورے دے رہے ہیں۔ذرا سے جھونکے کے ساتھ یہ لوگ تتر بتر ہوجائیں گے۔