counter easy hit

کرائے کا مکان

انسان جس زمین میں پیدا ہوتا ہے اس زمین کی خاک سے اس کی نفسیاتی پرورش ہوتی ہے۔نسلیں پردیس میں پیدا ہوں اور انہی ملکوں میں پرورش پائیں، جوان ہوں تو ان کا ملک وہی سر زمین ہے۔ ہم تارکین وطن کہلاتے ہیں لیکن امریکہ میں پیدا اور جوان ہونے والی نسل امریکی ہے۔ ان کا پاکستان سے والدین کی وجہ سے تعلق ہے۔ وطن کی کشش وطن میں پیدااور جوان ہونے والوں کا مسئلہ ہے، دیار غیر میں پیدا ہونے والی نسلوں کا مسئلہ نہیں بلکہ نسلیں والدین کی وجہ سے تعصب کا شکار ہو جاتی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ اور مقام پر انہیں غیر ملکی نسل ہونے کا تعصبانہ احساس دلایا جاتا ہے۔ آپ جہاں کہیں بھی چلے جائیں گھر نہیں بناسکتے اور پلٹ کر بار بار چھوڑے دیار کو دیکھتے ہیں اور ادھر جانے کے امکان کی ایک کھڑکی کھلی رہتی ہے۔دیار غیر میں شہریت حاصل کر لینے سے پردیس دیس نہیں بن جاتا۔ پردیس کی مثال کرائے کے مکان سی ہی رہتی ہے۔ تمام زندگی گزار دو لیکن کہلاتا کرائے دار ہی ہے۔ مقامی باشندے یعنی مالک کبھی بھی نکال سکتے ہیں ، ایسے میں وطن اور وطن میں گھر جنت کی نعمت سے کم نہیں۔تارکین وطن ، پردیسی ، سمندر پار یہ تمام القابات وطن چھوڑنے والے مجبور انسانوں کے نام ہیں جن کا نہ یہ وطن نہ وہ وطن۔ ایک بار وطن سے نکل جائیں تو ان کے لئے وطن واپسی امتحان ہے۔ نہ باہر والے قبول کرتے ہیں اور نہ اندر والے۔ عرب ممالک میں زندگی گزار دو لیکن شہریت نہیں ملتی اور نہ مالک مکان بننے کی اجازت ہے۔ اسلامی ممالک مسلمانوں کو شہریت نہیں دیتے لیکن غیر مسلم ممالک مسلمانوں کو شہریت دیتے ہیں۔البتہ دیگر ممالک میں شہریت مل جائے مگرمقامی باشندوں کا رویہ اور ماحول احساس دلاتا رہتا ہے کہ تو پردیسی ہے ، یہ ملک تیرانہیں ، یہ زبان تیری نہیں ، حتی کہ بینک کے ذریعہ خریدا ہوا مکان بھی تیرا نہیں۔ پندرہ یا تیس سال کا قرض اٹھا لیا ہے ، جس ماہ بینک کو قسط نہ ملی ،مکان بینک قبضہ میں لے لے گا اور تو بے مکان کر دیا جا ئے گا اور اگر برسوں کی جمع پونجی سے مکان کی ادائیگی کر بھی دی جائے اور بد نصیبی سے کوئی مقدمہ بن جائے تو سمجھو سب سے پہلے اس شخص کی زندگی بھر کی کمائی اس کا ادا شدہ مکان ہاتھ سے جاتا ہے۔ یعنی پردیس میں مکان بنا کر بھی اسے گھر کہنا نصیب نہیں ہوتا۔ پردیس کو وطن کہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا وطن کو پردیس کہنا مشکل ہے۔ پردیسیو ں کے ساتھ وطن میں مقیم احباب اور عزیز رشتے دار بھی ساری عمر پردیسیوں والا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ واپس لوٹ جائو وطن میں رہنا بہت مشکل ہے ،وطن میں یہ خرابی ہے وہ نقص ہے ، لیکن خود وطن کو ہمیشہ کے لئیے خیر باد کہنے کو تیار نہیں۔ وطن میں مکان کو گھر کہتے ہیں ، والدین رشتوں، بچپن کی یادوں ، اور آبائی ماحول سے سکون پاتے ہیں جبکہ دیار غیر تعلیم اور سیر وسیاحت سے بھی لطف اندوز اور مستفید ہوتے ہیں۔ وطن کا خوشحال طبقہ جب دیار غیر میں ہم وطنوں کو شب و روز محنت مزدوری کرتے دیکھتا ہے، کرتی دیکھتے ہیں تو وطن میں عیش آرام انہیں مستقل طور ہر پردیس منتقل ہونے نہیں دیتا۔ روزی اور تعلیم انسان کو بے وطن رکھتی ہے۔ وطن کو بھی گھر کہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ مر جائے تو دفنانے کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ تمام زندگی جن خاندانوں کے لئے دیار غیر کی خاک چھانتے رہے ، وطن میں کوٹھیاں اور محل بناتے رہے ، بیمار ہوئے تو کسی نے سہارہ نہ دیا ، مر گئے تو دو گز کی زمین اسانی سے نہ مل سکی۔ وطن والوں کو پردیس کی کشش اور پردیسیوں کو وطن کی چاہت ، نہ ادھر چین نہ ادھر سکون۔ ذہنی و جذباتی طور ہر دو کشتیوں کے مسافر۔ دائمی چین اور سکون فقط ایک احساس اور سوچ سے مل سکتا ہے اور وہ حقیقی ، دائمی اور مستقل وطن اور گھر پر ایمان اور توکل نصیب ہو جائے۔ یہ یقین ہو جائے کہ یہ دنیا کرائے کا مکان ہے ، ایک روز مالک کا حکم آئے گا اور خالی کرنا ہو گا۔ جتنے روز مہلت میسر ہے مکانوں اور چیزوں سے لطف اندوز ہوا جائے اور عزیز رشتے داروں کو بھی کھلے دل سے خوش آمدید کہا جائے۔ یادیں اور باتیں یاد رہ جاتی ہیں ، چیزیں لوگ بھول جاتے ہیں۔ پردیسی جب وطن آتے ہیں تو محبت اخلاق پیار لینے آتے ہیں ، عالی شام مکان ،چیزیں سہولیات ان کے پاس پردیس میں موجود ہیں ، پردیسی تو بس چاہت اور اپنائیت کے ترسے ہوتے ہیں۔ لیکن کم ہی خوش نصیبوں کو یہ نعمت میسر ہے۔ خاندانی جھگڑے ، پرانے گلے شکوے ، ماضی کی تلخ یادیں پردیسیوں کا مختصر وزٹ بے مزہ کر دیتی ہیں۔ بہتر ہے کم ملا جائے لیکن حسین یادوں سے ملا جائے۔ وطن ہو یا دیار غیر سب عارضی ٹھکانہ ہے۔ سب اس دنیا میں مہمان ہیں۔ کرائے دار ہیں۔ موت کی حقیقت سے آنکھیں چرانے سے حقیقت ٹل نہیں سکتی۔ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے اور برسوں زندگی گزارنے والے گھر میں اپنے ہی ملازمین جو کبھی اف نہیں کرتے تھے، کہہ رہے ہوتے ہیں کہ صاحب یا بیگم صاحبہ کی میت کو اٹھا ئو اور باہر لے جائو۔ یہ دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے” یہ بات وہ لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں جو کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں اور بدلتے حالات یا مالک مکان کے کہنے پر اپنا ٹھکانا بدلتے رہتے ہیں. بچپن فلیٹ میں ، جوانی نیچے والے پورشن، شادی اوپر والے پورشن، اولاد کونے والے گھر، بچوں کی شادی فلاں محلے وغیرہ وغیرہ بس ایسی ہی بکھری یادیں ہوتی ہیں ساتھ ۔ ہر گھر کو ارمان کے ساتھ سجانا اور چھوڑ کر دوسرے گھر چلے جانا اور پھر نئے سرے سے سجانا،اور پھر منتقل ہو جانا اور پھر ایک روز مستقل منتقل ہو کر حقیقی گھر لوٹ جانا یعنی انتقال کر جانا۔ پھر ہنگامہ کیوں کر بپا ہے؟ زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے لیکن رب کے فیصلے نہیں بدلے جا سکتے۔ رشتے احساس کے ہوتے ہیں اور گھر چاہت سے بنتے ہیں ورنہ مکان ہیں۔ مکان کو گھر کرنے کے لئیے دلوں کو وطن بنانا پڑتا ہے۔ وطن میں گھر ہوتا ہے۔ وطن میں گھر بنانے والے تارکین وطن کے جذبات کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ سنا کرتے تھے کہ وطن ماں سے ہوتا ہے ، ماں نہ رہے تو پردیسیوں کے لئے وطن کی کشش ختم ہو جاتی ہے لیکن ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ وطن وہ ماں ہے جو پیدا کرنے والی ماں کو بھی پناہ دیتی ہے۔ وطن وہ ماں ہے جس کی چھاتی پر کرائے کا مکان بھی گھر محسوس ہوتا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website