تحریر : رضوان اللہ پشاوری
توبہ کا لغوی معنی ہے ”رجوع کرنا،،واپس آنا ۔کہا جاتا ہے تبت ای رجعت یعنی میں واپس آیا ۔اصطلاح شریعت میں گناہ چھوڑ کراللہ کی طرف رجوع کرنا، متوجہ ہونااور گناہوں پر شرمندہ ہوکر اللہ کی طرف واپس آنا ۔جیسا کی کوئی شخص اصل رخ چھوڑ کر سیدھا راستہ اختیار کرے ،اسی طرح جہنم کے راستے پر چلنے والا شخص دوزح والے بڑی اعمال چھوڑ کر ، اعمال حسنہ اختیار کرتے ہوئے جنت کے راستے پر جب چلنے لگتا ہے تو اس کو تائب کہاجاتا ہے توبہ کی ترغیب ،اہمیت ،برکت اور بہترین نتائج کے بارے میں قرآن وحدیث میں کثرت سے نصوص وارد ہوئی ہیں ظاہر میں تویوں معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے سے گناہوں کی لذت ختم ہوجائیگی آور آخرت میں اچھا بدلہ ملیگا اس لیے دنیا پرست لوگ دنیا کے نشہ میں مست ہوکر دنیوی فوائد ومنافع کے حریص بن کر سے گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں لیکن شاید ان کو یہ علم نہیں کہ اسی طرح دنیامیں بھی ظاہر ہونگے ،پیچیدہ مسائل ،سخت مشکلات لاعلاج بیماریاں آسمانی وزمینی آفتیں اور مصبتیں ،دنیا میں مختلف رنگوں اور شکلوں کے عذاب اور بلائیں دور کرنے میں توبہ کاجوکر دار ہے اور توبہ ان مذکورہ چیزوں کے ازالہ میں جتنا مؤثر ہے اس کی نظیر نہیں ملتی ۔یہ محض کہنے اور لکھنے کی باتیں نہیں بلکہ حقائق ہیں قرآن وحدیث کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ توبہ کرنے کیا ثمرات ہیں بشرطیکہ توبہ سچی توبہ ہو اور توبہ کی شرعی تعریف اس پر صادق آئے اللہ تعالی نے توبہ کا حکم کیا چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اﷲِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا
اے ایمان والو توبہ کرو توبہ نصوحا(یعنی خالص توبہ کرو)
توبہ نصوحا کی تفسیر میں کا میلان مفہوم کے لحاظ سے اس طرف ہے کہ اس سے مراد خالص توبہ ہے یعنی سچی توبہ ۔پھر علماء کرام نے توبہ کی مختلف شرائط بیان کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ توبہ کرنے والے کے دل میں سرزدہ شدہ گناہ بارے سخت ندامت اور شرمندگی ہو اوریہ کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کاعزم ہو اگر کہیں یہ چیزیں توبہ کیساتھ نہ ہو تو پھر صرف توبہ کے الفاظ کوتوبہ کہنا مشکل ہوگااور یہی وجہ ہے کہ ہماری توبہ میں ہماری وہ اثر نہیں ہوتا حالانکہ فی الحقیقت توبہ ہر مشکل کاحل ہے توبہ رزق کیھچنتی ہے بشرطیکہ توبہ اخلاص اور درجہ بالاشرائط کا فقدان نہ ہو پیغمبر انقلاب ْۖ نے فرمایا
التائب من الذنب کمن لاذنب لہ(رواہ ابن ماجہ)
کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں
توبہ استغفار مال اور اولاد کی کثرت کا ذریعہ ہے چنانچہ اللہ تعالی نے سورة نوح میں فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہ’ کَانَ غَفَّارًا(١٠) یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا(١١) وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ
کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرے کہ وہ بخشنے والاہے تم آسمان پر بارش برسائے گا اور تمہارے اموال اور اولاد کے ذریعے سے مدد کریگا پوری دنیا ملکر بارش کا ایک بوند بھی نہیں اتارسکتی لیکن توبہ میں اللہ تعالی نے یہ قوت رکھی ہے مال اولاد کی کثرت کا راز بھی اسی عمل میں مضمر ہے۔صلوة استسقاء جو کہ توبہ کی ایک شکل ہے بارشوں کو برسانے کا ذریعہ ہے ابھی ابھی ہم خشک سالی کے شکار ہوگئے تھے لیکن اللہ تعالی صلوة توبہ کے اجتماعی عمل کے بعد آسمان سے رحمت نازل فرمائی مشاہدہ اللہ تعالی نے پورے قوم کو عمل کی طاقت دکھائی اور اسمیں اس طرف اشارہ ہے کہ ہر مشکل کا حل اسلامی احکام کا اتباع ہے مادی وسائل نہیں ۔ہم گنہگاروں کو تو ہر وقت استغفار کرناچاہیئے کسی نے خوب فرمایا کہ ہمیں اپنے استغفار پر بھی عدم توجہ واستحضار کیوجہ استغفار کرناچاہیئے آپۖ سے روایت ہے کہ میں ہر روز سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں ۔
عن ابی ھریرة سمعت رسولۖ انی لاستغفر اللہ فی الیوم مائة مرة( رواہ مسلم)
جب امام الانبیاء خو د روزانہ سومرتبہ استغفار کرتے ہیں توہم جیسے گناہوں میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو کتنی مرتبہ استغفار کرنی چاہیئے امت کواجتماعی وانفرادی طور پر توبہ کرنے کی ترغیب دینا ضروری ہے علمائے امت خاص طور پر توبہ کی اہمیت کے حوالے سے امت کو سمجھائیں ۔آج گناہ ہے مگر توبہ نہیں ،ندامت نہیں اللہ کی نافرمانی پر پچتھاوانہیں معصیت نہیں ہے مگر بعد از معصیت رورو کر اللہ تعالی معافی مانگنے کے ہمیں عادت نہیں،توبہ سے گناہ دھل جاتے ہیں اور ان کا اثر بھی ختم ہوجاتی ہے مگرسچی توبہ کہاں سے لائی جائے اور توبہ کرنے پر کس کو تیار کرلے ایک تجویز تویہ ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر سچی توبہ کرلے اور اللہ تعالی کیساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے پھر دوسروں کومعاملات صاف کرنے اور توبہ کرنے کی ترغیب دی جائے تاکہ کوئی فرد اس حال میں دنیا سے رخصت نہ ہوجائے کہ اس کا رب اس سے ناراض ہو توبہ کرنے پر پیسے بھی خرچ نہیں ہوتے
کسی جگہ جانے کی تکلیف بھی نہیں کرنا پڑتی اور کسی زمانہ کے ساتھ خاص بھی نہیں کہ ان اوقات میں توبہ قبول ہوگی اوران ایام میں نہیں بلکہ جوجہاں کہیں ہے دل کے عزم کے اور ندامت کے ساتھ سچی توبہ کرے بعض اوقات شیطان یہ دھوکہ بھی دیتا ہے کہ توبہ کرلوگے ابھی تو بہت وقت باقی ہے اور کچھ لوگوں کویہ بھی کہتا ہے کہ توبہ کرنا توضروری ہے لیکن اتنے سارے گناہ کیسے معاف ہونگے توبات یہ ہے کہ اس کے لیے معاف کرنے میں کیا ہے وہ ایک گناہ معاف کرتا ہے یاہزاروں دونوں صورتیں اس کے لیے برابر ہے اسکی رحمت بڑی وسیع ہے معاف کرنے پرآئے تووحشی کو بھی معاف کردیتا ہے جس نے امام الانبیاء کے چچاامیر حمزہ سید الشھداء کو بڑی بیدردی سے شہید کردیا تھا اس کو بھی معاف کردیا ،اسکی معافی بہت وسیع ہے چنانچہ قرآن
پاک میں ارشادہیں:
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا(٦٨)یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَیَخْلُدْ فِیْہ مُھَانًا(٦٩)اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اﷲُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اﷲُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اور جس نے یہ مذکورہ گناہ(شرک ،قتل، زنا) کئے توملے گاعذاب سے قیامت کے دن اس کے لئے عذاب ہے اور رسوائی کیساتھ اسمیں ہمیشہ رہے گا مگر وہ شخص جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیاعمل نیک پس مذکورہ اوصاف کے لوگوں کی برائیاں اللہ تعالی نیکوں میںتبدیل کرلے گا اور ہے اللہ پاک بخشنے والا مہربان پس اس آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سچی توبہ ایک بہت بڑی قوت ہے کہ مذکورہ عذاب اور مصیبت سے کوئی طاقت نجات نہیں دی سکتی سوائے سچی اور خالص توبہ کے کہ وہ نجات توکیا برائیوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کردیتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ تین بڑے گناہ اکبرالکبائر شرک ،قتل اور زنا کو جہنم کے عذاب کی سزا سنانے کے بعد الا من تاب کے ساتھ استثنی کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اتنا بڑے گناہ سچی توبہ سے کالعدم ہوسکتے ہیں توچھوٹی نوعیت کے گناہ توبطریق اولی توبہ سے معاف ہونگے بشرطیکہ سچی اور خالص توبہ ہو پھر آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیتیں کفار کے متعلق ہیں جب کفار کیساتھ اتنی رعایت ہے تو مسلمان کیساتھ تو اس سے بھی بڑی رعایت ہوگی لہذا شیطان کے اس باطل تصور کو دل میں نہیں لانا چاہیئے کہ گناہ معاف کیسے ہونگے کیفیت بڑی ہے یا مقدار وغیرہ بلکہ اللہ پاک معاف
کرنے پر آجائے تواس کی معافی مخلوق کی طرح نہیں ۔ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :
اِلاَّالَّذِیْنَ تَابُوْامِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْر رَّحِیْم(٨٩)
مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اپنے عمل کی اصلاح کی اور ظاہر کیا جیسے چھپایا تھا یہ وہ لوگ ہیں جنکی توبہ قبول کرتا ہو اور میں توبہ قبول کرنے والا مہربان ذات ہو یہ آیت بھی گنہگار لوگوں کوتوبہ کرنے کی دعوت دیتی ہے بہرحال کسی مسلمان کو بھی اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے بلکہ آج ہی سچی توبہ کرکے نئی زندگی کا آغاز کرناچاہیئے آج موقع ہے کل کوئی پتہ نہیں ۔وقت اورموت پرکوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا اسلئے وقت ضائع کئے بغیر اپنی زندگی پر مسرت اور پرامن بنانے کیلئے آج ہی سچی اور خالص توبہ کرنی چاہیئے۔لیکن ہماری توبہ میں ان شرائط کالحاظ ضرور ہو جن کا ذکر شروع میں گزر چکا ہے
تحریر : رضوان اللہ پشاوری
رابطہ نمبر: 0333-9036560
ای میل ایڈریس: rizwan.peshawarii@gmail.com