اسلام آباد: مشال خان قتل سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق آئی جی خیبر پختونخوا نے سپریم کورٹ میں مشال خان قتل سے متعلق رپورٹ جمع کرادی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کے روز یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دن 12 بج کر 52 منٹ پر علاقے کے ڈی ایس پی حیدر خان کو موبائل پر کال کی اور انہیں یونیورسٹی آنے کا کہا۔ دوپہر ایک بج کر 7 منٹ پر حیدر خان یونیورسٹی میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ مشال خان کے دوست عبداللہ کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔ حیدر خان کے مطابق یونیورسٹی انتطامیہ نے انہیں واقعے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ حیدر خان کے بیان کی تصدیق کے لیے ان کے موبائل فون کا ڈیتا حاصل کرلیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقدمے میں اب تک 26 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں یونیورسٹی کے 6 ملازم بھی شامل ہیں، واقعے کے مرکزی ملزم وجاہت نے اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرایا ہے، جس میں اس نے یونیوسٹی انتظامیہ کو بھی ملوث قرار دیا ہے ، اس کے علاوہ مشال خان کے دوست عبد اللہ کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا ہے جس میں عبد اللہ کے مطابق مشال نے کبھی توہین رسالت نہیں کی۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاملہ کی جوڈیشل انکوائری کے لیے پشاور ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا ہے، مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے شواہد نہیں ملے، مشال خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تصدیق کے لیے ایف آئی اے سے مدد مانگی ہے جب کہ معاملہ پر مزید پیش رفت جاری ہے۔ رپورٹ میں یونیورسٹی انتطامیہ کی جانب سے مشال خان کے خلاف تحقیقات سے متعلق نوٹی فکیشن پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کو توہین رسالت کی تحقیقات کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اگر اس قسم کا واقعہ ہوا تھا تو انتطامیہ کو پولیس کو رپورٹ کرنی چاہیے تھی۔