اسلام آباد(ایس ایم حسنین)صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر نے منظر عام پر آنے والے حکومت پاکستان کے اس اندرونی میمو پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں بیرون ملک مقیم 6 صحافیوں کو “پاکستان کے خلاف” بولنے سے روکنے کی بات کی گئی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ اس میمو کی حقیقی نوعیت سے قطع نظر اگر ان صحافیوں یا ان کے اہلخانہ کو کسی قسم کا نقصان پہنچا تو پاکستانی حکام اس کے ذمے دار ہوں گے۔میمو کے مطابق یہ صحافی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا قلمی ناموں سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف مواد شائع کررہے ہیں۔ میمو میں کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کی نقل و حرکت اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی سختی سے نگرانی کی جائے۔ تنظیم کے مطابق اسے 18 جون کی تاریخ والے وزارت داخلہ کے اندرونی میمو کی ایک نقل ملی ہے جس میں چھ صحافیوں کے نام ہیں۔ ان میں پانچ پاکستانی اور ایک افغان شہری ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ میں ایسی کئی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو بیرون ملک پاکستان کے مفادات کو سنگین نقصان پہنچا رہی ہیں۔. صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے یورپ اور امریکا میں مقیم ایک افغان اور پانچ پاکستانی صحافیوں سے متعلق پاکستان کے سکیورٹی حکام کے ایک ‘خفیہ مراسلے‘ پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جرمن خبررساں ادارے کے مطابق آر ایس ایف کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کا یہ ‘خفیہ میمو‘ اٹھارہ جون کو تحریر کیا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس مراسلے میں یورپ اور امریکا میں مقیم ایک افغان اور پانچ پاکستانی صحافیوں کی مبینہ ”پاکستان مخالف سرگرمیوں‘‘ پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ان چھ افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی میڈیا میں ”ریاست مخالف مواد‘‘ شائع کراتے ہیں، اس لیے ”ان کی نقل و حرکت، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر سختی سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ مراسلے میں یہ مزید ہدایات ہیں کہ، ”ان سے باضابطہ طور پر رابطہ کر کے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کے خلاف باتیں کرنا بند کر دیں۔‘‘ آر ایس ایف نے سکیورٹی کی خاطر چھ صحافیوں کے نام جاری نہیں کیے ہیں۔ آر ایس ایف کے مطابق یہ میمو پانچ اعلیٰ شخصیات کے لیے تھا، جن میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی ایس پی آر، وزارت اطلاعات میں وزیراعظم کے معاون خصوصی، ڈی جی ملٹری انٹیلیجس اور وزارت خارجہ شامل ہیں۔ اس حوالے سے خبررساں ادارے کی طرف سے آئی ایس پی آر کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا موقف نہیں آیا۔ پاکستانی حکام ماضی میں ایسے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔ آر ایس ایف کے مطابق یہ میمو سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا اور بظاہر یہ ڈرافٹ دستاویز ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ مراسلہ کس نے یا کیوں لیک کیا؟ ایک بیان میں تنظیم کے ایشیا پسیفک خطے کے انچارج ڈینیئل بیسٹرڈ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ دستاویز پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے خود ہی لیک کیا ہو تاکہ صحافیوں کو ڈرایا اور ان کے حوالے سے رائے عامہ کو خراب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ کوئی باقاعدہ سرکاری میمو نہیں ہے تو بھی صحافیوں سے رابطہ کرنے والی بات انتہائی تشویش ناک ہے۔ انہوں نے کہا، ”اس مراسلے میں جن صحافیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، تنظیم ان کے تحفظ پر نگاہ رکھے گی اور اگر انہیں یا ان کے گھر والوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی تو ہمیں پتہ ہو گا کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی۔‘‘
اگرچہ تنظیم نے کسی کا نام ظاہر نہیں کیا، لیکن سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے مبینہ میمو جن صحافیوں کے نام شامل ہیں، ان میں ایک کا تعلق وائس آف امریکہ سے ہے۔ میمو میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان افراد سے باضابطہ ذرائع سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، تاکہ وہ مستقبل میں پاکستان کے خلاف بولنے سے باز آجائیں۔ بظاہر یہ میمو وزارت داخلہ کے افسروں کو نہیں بھیجا اور سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا بلکہ ایک ورکنگ ڈاکومنٹ ہے جو صرف پانچ وصول کنندگان کو بھیجا گیا ہے۔ ان میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات اور وزارت خارجہ شامل ہیں۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر کے مطابق اس سال کے آغاز سے بیرون ملک مقیم پاکستانی صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان میں سب سے سنگین واقعہ سویڈن میں مقیم بلوچستان ٹائمز ویب سائٹ کے ایڈیٹر ساجد حسین کی پراسرار موت تھی۔ لاپتا ہونے کے سات ماہ بعد اپریل میں ان کی لاش ملی تھی۔
سویڈش پولیس نے ابھی تک اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ ان کی موت کا سبب بطور صحافی ان کا کام تھا۔ یہ بات پریشان کن ہے کیونکہ ساجد حسین کی ویب سائٹ نے ان کے صوبے بلوچستان میں منشیات کی اسمگلنگ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گم شدگیوں اور باغیانہ سرگرمیوں کی خبریں شائع کی تھیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ انھیں ان حساس موضوعات کی کوریج پر ہدف بنایا گیا ہو۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر کا کہنا ہے کہ اسے ملنے والی خفیہ معلومات کے مطابق 2019 کے آخر سے آئی ایس آئی کے اندر پاکستانی حکومت کے ان مخالفین کی ایک فہرست گردش کررہی ہے جنھوں نے مختلف ملکوں میں پناہ لی ہوئی ہے۔
اس بارے میں فوری طور پر حکومت پاکستان کا موقف سامنے نہیں آیا اور وائس آف امریکہ کی حکام سے رابطے کی ابتدائی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔ جس ذریعے سے بھی موقف سامنے آئے گا اسے یہاں شامل کیا جائے گا۔