تحریر: انجینئر افتخار چودھری
جن لوگوں کو عمران خان سے یہ شکوہ ہے کہ وہ کنٹینر پر اوئے کہہ کر پکارتے تھے اور یہ طرز عمل انہیں زیب نہیں دیتا۔چلئے آج ہم اس پارٹی کے ایک ایسے ذمہ دار فرد کے بیان کی جانب توجہ دلاتے ہیں جنہوں نے ایک انتحابی مہم ہی کہہ لیں میں کشمیر کے منتحب وزیر اعظم کو پہاڑی بکرا کہہ دیا۔ ان صاحب کے پاس گلگت بلتستان کی گورنری اور امور کشمیر کی وزارت بھی ہے۔چلئے کوئی گل نئیں۔اخلاقی معیار کے اعلی پائیدان پر براجماں ان لوگوں سے سے یہ پھول جڑھے تو ہمیں بھی علم ہوا کہ اس پارٹی میں رانا ثناء اللہ شیر علی کے بعد اور بھی نامی گرامی ہیں جو بولتے ہیں تو چھپڑ پھاڑ دیتے ہیں۔
پہاڑ کے لوگوں کو بکرا کہنے پر اس غیرت ناہید کی اس تان پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ہمارے مخالفین جب کبھی پنجابیوں کو ٹگا کہتے ہیں تو یقینا ان کا پالا اس برجیس طاہر یا ان جیسے لوگوں سے ضرور پڑا ہو گا۔شیخوپورہ کے اس فرزند سے کم از کم یہ توقع نہ تھی کہ وہ میدانوں سے اٹھ کر پہاڑ والوں کو گالیاں دیتا پھرے گا۔آج ہر کشمیری سراپا ء احتجاج ہے۔بہت سے لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کشمیر سے بلوچستان جیسا سلوک ہو رہا ہے۔
میں بنیادی طور پر کے پی کے اس گائوں سے تعلق رکھتا ہوں جہاں سے اسلام آباد گٹہ مارنے کی جاء پر ہے ہوش سنبھالی پنجاب میں تعلیم گجرانوالہ اور لاہور سے حاصل کی سندھ میں زمینیں ہیں گویا متحدہ پاکستان کی امانت ہوں۔مجھے ان کے اس بیان سے نفرت کی بو آئی ہے۔
پنجابیوں سے مشرقی پاکستانیوں کو گلہ تھا لڑ کر الگ ہو گئے سندھیوں کو گلہ ہے بلوچستان اور تو اور ایم کیو ایم بھی شاکی ہے۔جنوبی پنجاب والے قیدی تخت لہور دے ہیں۔میں ایک پنجابی کی حیثیت سے اپنا سب کچھ اپنے سندھی کشمیری بلوچی بھائیوں کو دینے کو تیار ہوں۔وہ روٹھیں نہ بس ہنسی خوشی سبز ہلالی پرچم تلے جئیں۔میرے اکیلے کی یہ خواہش نہیں ہے۔
پنجابیوں کی اکثریت میری طرح ہی سوچتی ہے۔لیکن یہ کیسی پاکستانیت ہے کہ برجیس طاہر جیسے لوگ اگر اول فول بکتے ہیں تو سارے کے سارے پنجاب پر انگلیاں اٹھا نا شروع ہو جاتے ہیں۔پنجاب نے پاکستان بننے میں اتنی ہی قربانیاں دیں جتنی کسی اور نے بلکہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ تو سکھوں نے بہیمانہ سلوک کیا۔ہاتھ پائوں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے پنجاب کے اندھے کنووں میں بے شمار مسلمان بچیاں کود گئیں۔سکھوں کے حرم میں پچیس ہزار سے زائد مسلمان عورتیں چلی گئیں۔لیکن ان قربانیوں کو چھوڑیں اگر کوئی ایک آدھ حماقت کا مظارہ کرتا ہے تو پورے پنجاب کو گالی کیوں دی جاتی ہے۔
کیا کشمیری کم خون میں نہا رہے ہیں ان کی شام الم تو جاری ہے۔لوگ کہتے ہیں پنجاب کے تین حصے کر دیے جائیں میں مطالبہ کرتا ہوں پاکستان کے ضلعوں کو صوبہ بنا دیں جان چھٹے پر روز نیا طعنہ سننے کو ملتا ہے۔پاکستان کے وسائل پنجابی کھا گئے مجیب الرحمن کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی رہی اب کراچی والے کہتے ہیں کہ پورے پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کراچی ہے۔
مسکین کراچی کشمیر جو شہہ رگ ہے ہندوستان کے پاس ہے کراچی الطاف حسین کے پاس۔ میں سب سے پہلے برجیس طاہر سے مطالبہ کروں گا کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں پنجابیوں کو پہلے ہی سے اچھی خاصی گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔دھرنے کے دنوں میں پشتون بھائی آئے تو انہیں بھی پنجابیوں سے شاکی پایا بلکہ بعض دفعہ اپنے ان کانوں سے ٹول پنجابیون۔۔۔۔پھر ننگی گالیاں تک سنیں انہیں زعم یہ کہ پنجابی عمران خان کو پشتونوں نے جتوایا۔یہ نفرتیں ہمیں کہاں لے جائیں گی لگتا ہے اس ملک کو کسی بیرونی دشمن کی اپنوں کے ہوئے ضرورت نہیں ہے۔
پنجابی ایک گالی بنتے جا رہا ہے سندھ میں رہا پنچاپی کا لقب ملا۔اس کا قصور ہے کیا میرے تایا نے ١٩٦٦ میں میر پور متھیلو کے پاس زمین لی تائی اماں بتایا کرتی تھیں کہ آپ کے تایا سائیکل پر متھیلو جایا کرتے تھے تو میں گوٹھ کی نشاندہی کرنے کے لئے رات کو لالٹین لگا کر اونچے بانس پر رسی کی مدد سے لٹکا دیا کرتی تھیں کہ وہ راستہ نہ بھولیں اور جب زمینیں آباد ہو گئیں تو سرخ لینڈ کروزر لی لیکن ایک روز اپنی گوٹھ پر قتل کر دیے گئے۔ اور ایک روز ہم ان کا جثہ لئے نلہ ہریپور پہنچ گئے۔
پنجابیوں کو اپنی صفوں سے ایسے گندے عناصر کی بیخ کنی کرنی چاہئے جو وحدت پاکستان کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ان کی وطن کے لئے قربانیاں اپنی جگہ مگر احساس تفاخر ملکی وحدت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ایک نجی چینیل نے اس دن ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا کہ افواج پاکستان میں پنجابی جرنیلوں کی تعداد اتنی تھی بنگالی اتنے تھے۔لیکن یہ نہیں بتایا کہ شہداء میں کتنے مغربی پاکستانیے تھے اور کتنے مشرقی پاکستانئے۔ مجھے آج صرف برجیس طاہر کی مذمت کرنا ہے۔
اگر وہ سچے پاکستانی ہیں تو چودھری مجید سے معافی مانگیں انہیں یہ علم ہی نہیں کہ اقبال نے کہا تھا فطرت کے اصولوں کی کرتا ہے نگہبانی یا بندہ ء صحرائی یا مرد کوہستانی پہاڑی فرزندوں کا دل توڑنے والے اپنے شیخوپورئیے بھائی سے التماس ہے کہ جوش جذبات میں اوپر نیچے ہو ہی جاتی ہے ابھی بھی ڈھلیاں بیراں دا کچھ نہیں گیا۔ اور اگر ضد ہے تو استعفی دیں کشمیری اگر اتنے بزدل ہوتے تو انڈیا کی آٹھ لاکھ فوج سے ہار مان لیتے تم جیسے رائے ونڈی مجاور سے دو ہاتھ کرنے میں کیا دیر لگے گی۔برجیس استعفی دیں۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری