اسلام آباد(ایس ایم حسنین) قومی اسمبلی کے اجلاس میں زراعت کے شعبہ کے مسائل اجاگر کرنے کیلئے بخث کی گئی۔ اس موقع پر متفقہ طور پر ملک بھرکی جامعات میں قرآن پاک ترجمہ کیساتھ پڑھانے کی انتہائی اہم قرارداد متفقہ طورپرمنظورکرلی، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تمام جامعات میں قرآن پاک ترجمہ کیساتھ پڑھانے کے حوالے سے قرارداد قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ہے۔ قرارداد کے متن کے مطابق صوبوں کی جن جامعات میں قرآن ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھایا جارہا وہاں بھی قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھایا جائے۔ قراردار میں کہا گیا ہے کہ قرآن پاک کا اردو ترجمہ پڑھنا ہماری نسلوں کے لیے علم کے راستے کھول دے گا۔ قرارداد کو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں شمالی وزیرستان میں شہید ہونے والے پاک فوج کے جوانوں اور سابق رکن قومی اسمبلی ملک لیاقت ڈوگر کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی گئی۔ قومی اسمبلی میں سپیکر کے کہنے پر مولانا عبدالاکبر چترالی نے مرحومین کے ایصال ثواب اور درجات کی بلندی کے لئے دعا کرائی۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے غوث بخش خان مہر نے کہا کہ وفاقی وزیر فخرامام خود بھی زراعت سے تعلق رکھتے ہیں اور سینئر آدمی ہیں ان سے امید ہے کہ زراعت کے بارے میں ہمارے ملک پائی جانے والی خامیوں کو درست کرنے کیلئے کردار ادا کرینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ کاشتکار کو کم سے کم 40 فیصد پیداوار کا بچت کے طور پر ملنا چاہیے مگر ایسا کچھ بھی آج تک ممکن نہیں ہوسکا کہ اسے بیجوں اور پیداوار کا اچھا نعم البدل مل سکے۔ بیجوں کی بہتری کیلئے ریسرچ دوبارہ شروع ہونی چاہیے۔ گنا جوکہ پانی زیادہ لیتا ہے مگر لوگ فائدے کی وجہ سے اسے زیادہ اگا رہے ہیں اور باقی زرعی پیداوار کی طرف توجہ کم ہوگئے ہے۔ اس مرتبہ ڈی اے پی پر کوئی سبسڈی نہیں ہے جس سے کاشتکاروں کو نقصان ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کاشتکاروں کو ٹیوب ویل کیلئے بجلی پرسبسڈی ملنی چاہیے اور اگرسولر سسٹم سے ٹیوب ویل چلانے کیلئے تکنیکی امداد کی جائے تو اس سے کاشتکار کو بھی خاطرخواہ فائدہ ہوگا اور بجلی بھی بچانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیڈ ریسرچ اور تھرکنال اور سولر پینل کاشتکاروں کو فراہم کرنے میں اپنا کردارادا کرے۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نثار احمد چیمہ نے کہا کہ زرعی ملک ہونے کے ناطے زراعت کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے مگر اس ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے اس شعبے کے ساتھ وابستہ افراد کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ گندم ، گنا، آلو، مکئٰ، چاول تمام اجناس پیدا کی جارہی ہیں مگر ہر جنس کے ساتھ وابستہ کاشتکار بدحالی کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومت نے کاشتکاروں کو ریلیف دینے کیلئے کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ڈیزل کی قیمتوں میں جو نامناسب اضافہ کیا گیا ہے اس سے کاشتکار کیلئے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ظالمانہ ہے۔ حکومت برآمدات کیلئے کچھ نہیں کررہی ۔ ہندوستان عرب ملکوں کو سبزیاں برآمد کرتا ہے مگر ہماری حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی۔ جس کی وجہ دوسرے ملکوں میں بیجوں پر ریسرچ ورک ہے ۔ 60 کی دہائی سے جو فیصل آباد میں یورنیورسٹی قائم ہوئی ہے زرعی ملک میں ایسا دوسرا کوئی ادارہ نہیں بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی یورنیورسٹیز میں ریسرچ سکالرز اور جینیٹنگ انجینرز کی بہتری کیلئے اقدامات کیے جائیں ان کا کہنا تھا کہ جہاں بجلی مفت ہے وہاں زراعت ترقی کر رہی ہے مگر ہمارے ہاں اس سہولت کی بات نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ کاشتکاروں کو ٹیوب ویلز کیلئے بجلی کی درخواست لے کر دردر بھٹکنا پڑتا ہے۔ غلام بی بی بھروانہ نے قومی اسمبلی میں زراعت پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ کہ 18 سال سے اچھی اچھی باتیں سنتے رہے ہیں لیکن ان باتوں سے کسانو ں کو ریلیف نہ مل سکا ،موجودہ حکومت سے استدعا ہے کہ مظلوم کسان کے آنسووں کو صاف کردیں تو یہ ملک ترقی کرسکتا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ مجھ سے بہتر تجاویز آئی ہیں ، اس ملک میں سب سے مظلو م طبقہ کسان ہے جب تک کسان کے لے ڈیزل سستا نہیں ہوگا، کسان کے لیے جب تک بجلی کھاد سستی نہیں ہوگی زراعت کا شعبہ ترقی نہیں کرسکتاانہوںنے کہاکہ کسان کو ڈیزل ، کھاد اور بجلی پر بھرپور سبسڈی دی جائے ، مولانا عبدالکبر چترالی نے کہاکہ ماضی کی حکومتوں کی ناقص پالیسی کیو جہ سے کسان کو وہ مقام نہیں دیا جا سکا جو ملنا چاہیے تھا کسا ن ہمارے لیے ہمارے بچون کے لیے محنت کرتا ہے کسان کو سستی کھاد اور سستی بجلی نہیں ملتی کسان کو سستی زرعی ادویات نہیں مل رہی ہیں کسان کو سبسڈی دی جائے یہ ملک زرعی اجنساس میں خو دکفیل ہو جائے گاوزیر پارلیمانی امورعلی محمد خان نے کہاکہ اس بحث کا مقصد تجاویز لینا ہے ، تجاویز نوٹ کی جائیں اور پھر یہ تجاویز اور سفارشات قائمہ کمیٹی کو ارسال کی جائیں ، کسان کے مسئلے پر بات ہورہی ہے لیکن نوٹس نہیں لیے جارہے ہیں وزارت کے افسران اٹھ کر چلے گئے ہیں ۔ کم سے کم افیسر گیلری میں جوائنٹ سیکرٹری لیول کے افسران موجود ہونے چاہیے ، پینل آف چئیر امجد خان نیازی نے رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ سیکرٹریز کو موجود ہونا چاہیے ۔محسن داوڑ نے کہاکہ بجٹ سیشن میں آپ کی جانب سے رولنگ دی گئ کہ مشیر خزانہ موجودہ ہونے چاہیے لیکن وہ پورے سیشن میں نہیں آئے ، سیکرٹریز قائمہ کمیٹی میں نہیں آتے ، چئیر آف پینل نے رولنگ دی کہ سیکرٹری زراعت کو یہا ں بلایا جائے دس منٹ میں سیکرٹری کو یہاں ہونا چاہیے ،راجہ ریاض نے کہا کہ وزیر خوراک بھی موجود نہیں ہیں سیکرٹری کے رویے کے خلاف یہ اجلاس فوری طور پر ملتوی کر دیا جائے ، ا نہوںنے کہاکہ زراعت پر بات کرنی ہے زراعت کے لیے ضروری چیز پانی ہے ہم نے جب سے پاکستان بنا ہے ہم نے کتنے ڈیم بنائے ہیں کتنا پانی اکٹھا کیا ہے بھارت ہمارے ساتھ50 کے قریب ڈیم بنا چکا ہے ، ڈیم بنائے جائیں تاکہ زراعت کو پانی مل سکے قومی اسمبلی اجلاس سے عبدالاکبر چترالی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید ہماری ہر طرح سے راہنمائی کرتا ہے اس لیے قرآن مجید کی تعلیم عام کرنے کیلئے منظور کی گئی قرارداد انتہائی اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمام ازم قابل قبول نہیں ہیں اس لیے آئندہ اسلام کے ساتھ دین کے بجائے مذہب لگا دیا جائے تو یہ درست اقدام ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ زراعت کی بہتری کیلئے تمام اقدام کیے جانے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے پاکستان کو زرخیز زمین اور پانی مہیا کیا ہے اور چار موسم بھی دیے ہیں اور بعض لوگوں کے نزدیک 12 موسم بھی کہے جاتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومتوں نے بھی کسانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ملکت خدادا پاکستان میں کسانوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان کو سستی ادویات ، زرعی ادویات، قرضوں سمیت کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔ اگر ہمیں زراعت کو ترقی دینی ہے تو میری تجویز ہے کہ کسان کو کم از کم چار سال ان کو سستی بجلی فراہم کریں انشااللہ ہمارا ملک خودکفیل ہوجائیگا۔ ہمارے ہاں چترال میں دنیا کے بہترین انگور، سیب، خوبانی ، شہتوت وغیرہ اور باقی پھل موجود ہیں مگر اس کو سنبھالنے کیلئے کوئی فیکٹری یا سٹوریج مہیا نہیں کیے گئے۔ دریائے چترال کے کٹائو کی وجہ سے زرعی زمین سکڑتی جارہی ہے۔ وزیر پانی وبجلی سے توجہ کی درخواست ہے کہ وہ اس ایشو پرتوجہ دیں۔ گزشتہ سال سیلاب میں جو تباہی ہوئی اس سے گولن گول میں بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی ہے اس کی بحالی اور وہاں موجود بجلی گھر کو ہونے والے نقصان کیلئے بھی مرمت کی ضرورت ہے۔