ہمارے ملک پاکستان میں میں جمہوریت کی عزت ہے اور اسی عزت اور بقا کی خاطر قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاسی پارٹیاں “مک مکا” کرتی ہیں۔ آئین کی بھی عزت ہے اور اس کو توڑنے والے کے لیے سزا، اور سزا کا مطالبہ کرنے والے بھی ہیں۔ عدالت کی عزت اور تکریم پر بھی کوئی دو رائے نہیں ہے اور توہین عدالت کی بھی سزامقرر ہے۔ آجکل سب سے زیادہ شور ووٹ کی عزت کا اٹھا ہے۔ آپ کی یاداشت کے لیے عرض ہے کے یہ وہی ووٹ ہیں جو پچھلے الیکشن میں سڑکوں پر اور کچرہ کونڈیوں میں پڑے ملے تھے۔ کہیں تو ہماری پیاری آنٹیوں نے ووٹ کو اتنی عزت دی تھی کہ ایک وقت میں ایک کی بجائے سینکڑوں ووٹ ڈالے تھے۔ ووٹ کی عزت کا یہ عالم تھا کہ ایک حلقہ کے ووٹ اعزازی طور پر دوسرے حلقے میں منتقل کر دیے گئے تھے اور ووٹر اپنے ووٹ اپنے حلقے میں تلاش کرنے میں اتنے ہی ناکام ہوئے جتنا شریف خاندان اپنے اثاثوں کی منی ٹریل دینے میں۔
وطن عزیز میں عدالت، فوج، سیاستدان، نوکر شاہی اشرافیہ اور ووٹ کی عزت ہے، اگر نہیں ہے تو ووٹر کی کوئی عزت نہیں۔ ایک عام ووٹر جس کے گھر بجلی نہیں آتی، جس کا روزگار کا پہیہ بجلی کی عدم دستیابی سے رک جاتا ہے، جس کے گھر سردیوں میں گیس ناپید ہوتی ہے، جس کے بچے کو اسکول میں نہ معیاری تعلیم ملتی ہے اور نہ ہی اہل اساتذہ، اور تو اور اس ووٹر کو دی جانے والی سہولیات کا عالم یہ ہے اسکے بچے سڑکوں اور رکشوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ہسپتال میں داخلہ مل بھی جائے تو ایک بستر پر تین تین مریض ہوتے ہیں اور وہاں غیر تربیت یافتہ نرسیں بچوں کو سوئیاں چبھا چبھا کر تربیت پاتی ہیں یعنی اسی غریب ووٹر کا بچہ انکے لیے تختہ مشق بن جاتا ہے۔ اس ووٹر کے بچوں کو نہ کھیلنے کے لیے پارک ملتے ہیں نہ ہی لائبریری تک اسکی رسائی ہو پاتی ہے۔
یہ بیچارہ ووٹر سیوریج کے پانی میں سے گزر کر جب اپنے گھر پہنچتا ہے تو گرمی اور اندھیرے سے گھبرا کر تازہ ہوا کے لیے باہر نکلتا ہے جہاں محکمہ صفائی ک ناقص کارکردگی کی بدولت پیدا ہوئے مچھروں کی وجہ سے ڈینگی اور چکن گھونیا کا شکار ہو کر اسی ہسپتال پہنچتا ہے جہاں اسے اپنا بیڈ دو اور مریضوں کے ساتھ شیر کرنا ہوتا ہے۔ اس بیچارے ووٹر کی مہنگائی سے کمر ٹوٹ چکی ہے۔ گوشت شاید مہینہ میں ایک مرتبہ ہی نصیب ہوتا ہے۔ اب تو دال بھی قوت خرید سے باہر جا چکی ہے۔ اس ووٹر کی ضروریات زندگی بھی پوری نہیں ہوتیں، سہولیات تو دیوانے کا خواب ہے۔ ادھر ووٹ کی عزت کا نعرہ لگانے والے کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے اور لاکھوں کے کپڑے اور زیورات پہنتے ہیں۔ انکی چھینک کا علاج بھی ملک سے باہر ہوتا ہے۔ انہوں نے کبھی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب نہیں سہا۔ ان کے بچے گیس نہ ہونے کی وجہ سے کبھی بغیر ناشتے کے اسکول نہیں گئے بلکہ انہیں تو یہ بھی نہیں پتا کے کتنے ہی ووٹروں کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا، اسی لیے تو وہ ایک قیمہ والے نان یا ایک پلیٹ بریانی کے بدلے اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں یا الیکشن کے قریب ایک گلی پکی ہوجانے سے خوش ہو جاتے ہیں، چاہے منتخب ہونے کے بعد انکے نمائندے باقی پورے پانچ سال شکل بھی نہ دکھائیں۔
خدارا اپنے ووٹ کی اتنی کم قیمت نہ لگائیں۔ اس مرتبہ وقتی فائدہ کے بجائے دائمی اور اجتماعی فائدہ کے لیے ووٹ دیجئے اور اگر اب کوئی نعرہ لگاتا ہے “ووٹ کو عزت دو” تو عوام کا نعرہ ہونا چاہئیے،
پانی دو
بجلی دو
تعلیم دو
روزگار دو
صحت دو
پارکس دو
لائبریری دو
صفائی دو
آگے بڑھنے کا یکساں موقع دو
امن دو
ووٹر کو عزت دو
ووٹ کی عزت کا نعرہ لگانے والوں کے بچوں پر موجود چہروں پر سرخی اور آسودگی کا موازنہ اپنے بچوں کے چہروں کی بے رونقی اور بے اطمینانی سے کیجۓ گا اور پھر اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیجۓ گا کیونکہ ووٹر کی عزت ہی اصل میں ووٹ کی عزت ہے۔