تحریر: امتیاز علی شاکر
آپ کویہ جان کر شائد حیرت ہوپریہ حقیقت ہے کہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جہاں شراب بنانے کی قانونی طور پر اجازت کے ساتھ مسلمان شہریوں پر شراب نوشی پر پابندی عائد ہے۔ بیس کروڑ آبادی والے اس ملک میں شراب بنانے کے کئی کارخانے ہیں اور انہیں قانونی طور پر ملکی آبادی کے تین فیصد یاستر لاکھ غیر مسلم شہریوں کو سرکار کے جاری کردہ پرمٹ کے تحت شراب فروخت کرنے کی اجازت ہے۔
یعنی پابندی اورموت کاپرمٹ ساتھ ساتھ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں پرشراب پینے کی پابندی کے باوجود شراب کی طلب اقلیتوں کی آبادی سے نہ صرف زیادہ ہے بلکہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر شراب بنانے والے کارخانوں نے حالیہ چند برسوں کے دوران ‘ووڈکا، جن، وہسکی، رم، برانڈی اور بیئرسمیت بہت سے فلیورز متعارف کروائے ہیں۔قانونی اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد اورغیرقانونی طورپرشراب بنانے والے کارخانوں میں کوئی فرق نہیں ،ایک کے پاس انسانوں کوموت کے گھاٹ اتارنے کاقانونی جوازموجودہے جبکہ دوسرے کے پاس رشوت اورسفارش کی طاقت ۔میرے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنازیادہ مشکل نہیں کہ انتظامیہ منشیات فروشوں کے سامنے بے بس ہے۔
اسی بے بسی کے سبب گزشتہ دنوںلاہورکے علاقہ یوحناآباد میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں زہریلی شراب پینے سے درجن سے زائدافراد جاں بحق ہو گئے۔زہریلی شراب پی کرلوگوں کامرجاناویسے توکوئی نئی بات نہیں،آئے دن دنیابھر کی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔پھربھی مقام فکرتوہے،سوچ وچارکی ضرورت توہے،انسانی بنیادوں پرآگاہی مہم کی گنجائش توموجودہے۔صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں پیش آنے والاسانحہ ایک بارپھرہمارے شعورکومنہ چڑارہاہے ۔لوگ اپنی مرضی سے زہریلی شراب پی کرجاں بحق ہوگئے توکیاانتظامیہ کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی ؟بنتی ہے نہ صرف انتظامیہ بلکہ ہراک شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اردگردکے ماحول پرگہری نظررکھے اورہرممکن کوشش کرے کہ لوگوں کواچھائی اوربُرائی سے آگاہ کرے۔
مرنے والوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے توکیااس میں اُن کی غلطی نہیں؟شراب کسی صورت بھی انسانی صحت کیلئے بہتر نہیں ،زہریلی نہ بھی ہوتب بھی تادیرسہی موت ہی کاسبب بنتی ہے،حیرت کی بات ہے ملک پاکستان میںشراب کی خرید و فروخت پر پابندی بھی ہے اور ہوٹلوں سے پرمٹ پر ملتی بھی ہے۔سناہے بڑے ہوٹلوں میں بکنے والی شراب کافی مہنگی ہوتی ہے اِس لئے غریب شرابی دیسی ٹھرے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ایک خبرکے مطابق دیسی ٹھرا بنانے والے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں نشہ آور زہریلے کیمیکلز استعمال کر کے شراب پینے والوں کی جان کے در پے ہوتے ہیں ۔زیادہ تراجتماعی اموات بھی انہیں ٹھرروںکی زہریلی شراب پینے کے سبب ہوتیں ہیں۔
سانحہ یوحناآبادکی ابتدائی رپورٹ میں بھی یہی بتایاگیاہے کہ شراب میں سپرٹ کی ملاوٹ کی گئی تھی جواموات کاسبب بنی۔اکثرلوگ ایسے واقعات کوحادثات کانام دیتے ہیں پرمیں نہیں سمجھتاکہ یہ حادثات ہیں ۔حادثہ تواُسے کہتے ہیں جوانجانے میںپیش آجائے،جس کے ہوجانے سے قبل کچھ اندازہ نہ ہوپائے جبکہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ شراب پینے یادیگرمنشیات کے استعمال سے جلدموت لازم ہے۔جب شراب کوزہریلی کہاجاتاہے تب بھی حیرانگی ہوتی ہے۔
سوچو یا روزہر، زہریلا نہیں ہو گا تواور کیا ہوگا؟ ہاں یہ کہاجاسکتاہے کہ زیادہ زہریلی شراب نے درجن سے زائد افراد کی جان لے لی،یوں کہاجائے توزیادہ بہترہوگاکہ درجن سے زائد افراد نہیں زیادہ زہریلی شراب کواپنی جانیں دے دی۔دیکھاجائے توحکومت اورمحکمہ پولیس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے پیاروں کوہرطرح کے زہرسے دوررکھنے کی کوشش کرے ۔عام آدمی شراب اوردیگرمنشیات کی فیکٹریوں کوبند کروانے کی طاقت نہیں رکھتااس لئے یہ ذمہ داری خالصتاانتظامیہ کی ہے پرافسوس کہ یہاں انسانیت کی بقاء کیلئے شراب کے کارخانوں کوبند کرنے کے بجائے مذہب کی بنیادپرپرمٹ جاری ہوتے ہیں ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ منشیات کے نقصانات کومذہب کی بجائے انسانی بنیادوں پر دیکھا جائے۔
مذہب کوئی بھی ہوانسان بنیادی طورپرایک ہی مشین کانام ہے۔آپ دنیاکے کسی ڈاکٹریاحکیم سے بات کرلیں کوئی بھی شراب کوانسانی صحت کیلئے بہترقرارنہیں دے سکتا۔آئے دن منشیات مائوں سے اُن کے بچے چین لیتی ہیں،ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے پیارے تڑپ تڑپ کرجان دے دیتے ہیں،ہنستے کھیلتے گھروں میں صف ماتم بچھ جاتی ہے اورہم منشیات کے خاتمے میں اپناکردارادانہیں کرتے۔
ہم نے شراب سمیت دیگر جان لیوا منشیات کے استعمال اور خریدو فروخت کے خلاف آواز اُٹھا کر اس لعنت کی روک تھام نہ کی تواللہ نہ کرے کل میرے اورآپ کے جگر گوشے بھی منشیات کی لت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ زہریلی شراب پینے کی وجہ سے اتنے افراد ہلاک ہوگئے ہیں تو مجھے بہت عجیب لگتا ہے کہ شراب پینے والے فوری طور پر ہلاک ہوجائیں تو شراب کو زہریلی قراردے دیا جاتا ہے اور جب یہی زہر شرابی افراد کو دو تین سال بعد موت کی اندھیری وادی میں دھکیلتا ہے تب شراب کو زہریلی کیوں نہیں کہا جاتا؟ مان لیاکہ اولین ذمہ داری حکومت کی ہے۔
مان لیا کہ شراب سرعام دستیاب ہے، مان لیا کہ پولیس منشیات فروشوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے، مان لیاکہ منشیات فروشوں کی پشت پناہی کرنے والے معززین علاقہ وزیروں اور سفیروں کے قریبی ہیں، یہ بھی مان لیا کہ ملک میں عدل وانصاف نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں پریہ کیسے مان لیاجائے کہ ہم خوداپنے بچوں کے دشمن ہیں۔
منشیات جیسی لعنت سے اپنے بچوں کومحفوظ رکھنے کیلئے انتظامیہ پرساری ذمہ داری ڈالے کے ساتھ ہمیں خودبھی کوشش کرنی چاہئی۔ہمیں شراب کے قانونی وغیرقانونی کارخانوں کوبندکروانے کیلئے حکومت پرعوامی دبائو ڈالنا چاہئے۔مذہبی، سیاسی، سماجی، فلاحی، بچوں، خواتین، بزرگوں مختصرکہ انسانی حقوق کی پاسبان تمام تنظیموں کو آگے بڑھ کراس کارخیرمیں حصہ ڈالنا چاہئے۔
تحریر: امتیاز علی شاکر: لاہور
مرکزی نائب صدرکالمسٹ کونسل آف پاکستان(ccp)
imtiazali470@gmail.com
03154174470