تحریر : اختر سردار چودھری
آج دنیا بھر میں کم از کم 16,300ایٹمی ہتھیار ہیں۔جن میں سے 14ہزار 700امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔امریکا ہر سال اپنے جوہری ہتھیاروں کی تجدید کے لیے کم ازکم400 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے ۔روس اس دوڑ میں امریکہ سے پیچھے نہیں ہے بلکہ آگے نکلنے کی سوچ رہا ہے ۔برطانیہ ایٹمی آبدوزیں بنائے جارہا ہے ۔فرانس زمین سے فضا میں مار کرنے والے جوہری میزائل کو بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے ۔چین کا تازہ بیاں ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی قوت بننے جا رہا ہے ۔اس کے علاوہ چین ایک نئی کلاس کی جوہری بیلسٹک میزائلوں والی آب دوزوں کی تیاری میں بھی مصروف ہے ۔بھارت اپنے جوہری پروگرام کو جاری نہ صرف رکھے ہوئے ہے اور آب دوزوں کے بیڑے بڑھانے میں لگا ہے، بلکہ امریکی جریدے کے مطابق بھارت ہائیڈروجن بم بنا رہا ہے ، خطے کا سب سے بڑا خفیہ جوہری منصوبہ بھارت کے جنوبی علاقے کرناٹکا کے مقام پر ہے۔
پاکستان نے ”پلوٹونیم”کا تیسرا ری ایکٹر شروع کردیا ہے، نیز کم فاصلے کے جوہری میزائلوں کے کام یاب تجربات کررہا ہے اسرائیل اپنے غیرا علانیہ جوہری پروگرام پر تیزی سے عمل پیرا ہے ۔شمالی کوریاکے جوہری عزائم بھی سب ہی پر عیاں ہیں۔اس نے ہائیڈروجن بم بنا لیا ہے ۔اس پر امریکا کا فرمان ہے کہ ”دنیا کو شمالی کوریا کے خطرے سے بچائیں گے ”شمالی کوریا باضابطہ طور پر ہائیڈروجن بم رکھنے والا دنیا کا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔ ہائیڈروجن بم کا سب سے پہلا تجربہ امریکا نے یکم نومبر 1952 ء کو کیا تھا، جب کہ روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے پاس بھی ہائیڈروجن بم موجود ہیں۔اِن حالات میںسوچا جا سکتا ہے کہ دنیا کا انجام کیا ہونے والا ہے۔
یہ 1947ء کی بات ہے ،جب ”بلیٹین اوف دی ایٹمک سائنٹسٹس” کے سائنس دانوں نے دنیا کو لاحق جوہری خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے ایک تصوراتی گھڑی بنائی۔سائنس دانوں نے ”قیامت کی گھڑی” بنا کر ایک علامتی الٹی گنتی کا نظام وضع کر رکھا ہے، جس سے دنیا کی تباہی کے وقت کا تعین کرنا مقصودہے ۔یہ گھڑی بتاتی ہے کہ انسان اپنے ہی ہاتھوں کتنی تیزی سے تباہی کی طرف گامزن ہے ۔یعنی یہ گھڑی الٹی چل رہی ہے اور بتاتی جا رہی ہے کہ اب آخری وقت کتنا دور ہے ۔گھڑی بنانے کے بعد (جوہری) سائنس دانوں نے اسے چند منٹ کی دوری پر سیٹ کردیا۔ قیامت کی یہ علامتی گھڑی امریکا میں یونی ورسٹی آف شکاگو کی دیوار پر آویزاں ہے۔
جب سے اسے بنایا گیا اب تک اِس میں18مرتبہ تبدیلی آئی ہے۔ 1991 ء میں یہ 17 منٹ دور کردی گئی تھی۔ 2007ء سے پہلے تک یہ محض جوہری جنگ کے نتیجے میں کرہ ِارض کی تباہی تک محدود تھی۔اس کے بعد سوچا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی زمین کو خاتمے کی طرف لے جا رہی ہیں۔اس طرح قیامت مزید قریب آ رہی ہے، یہ گھڑی 2012 ء کو قیامت سے 5 منٹ کی دوری بتا رہی تھی 2014 ء کو موسمیاتی تبدیلیوں ،اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو ،گلوبل وارمنگ کو سامنے رکھتے ہوئے اِسے 2 منٹ آگے کھسکا دیا ۔اب یہ قیامت سے محض 3منٹ کی دوری پر ہے ۔حقیقت میں صورتحال اس سے بھی سنگین ہو چکی ہے۔سائنس دان کی دنیا میں بہت عزت کی جاتی ہے، ان کو ہر ملک اپنا ہیرو مانتا ہے ۔سائنس دانوں نے دنیا کو بہت کچھ دیا ۔ادویات سے لے کر بم تک ۔ میری بات سائنس کے پجا ریوں کو بری لگے گی۔آج جو دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، اس کے مجرم بھی یہ سائنس دان ہیں ۔ان سائنس دانوں نے پہلے ایٹمی بم بنائے اب کہ رہے ہیں کہ ”ہماری بات سیاست دان نہیں سمجھ رہے، اس لیے عوام سے اپیل ہے کہ وہ اپنے اپنے رہ نماؤں پر زور دیں۔
انہیں مجبور کریں کہ کسی طرح رکازی ایندھن کے استعمال اور آلودگی میں کمی لائیں،جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے پر زور دیں ۔ دنیا کو ایٹمی حملوں ، موسمیاتی تبدیلی اور جدید ٹیکنالوجی سے خطرہ ہے ۔ایسے اقدامات کی ضرورت ہے، جن سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج خاص سطح تک آجائے ۔ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ اگر تیزی سے کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی تو بعد میں ہم صرف لکیر پیٹتے رہ جائیں گے ”اس پر ہم سائنس دانوں کو شاباش دیتے ہیں، ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے مایہ ناز سائنس دانوں نے بڑی اہم ۔بڑی سچی ۔اور بہت کھری باتیںہم کو بتائی ہیں ۔اور پھر ”قیامت کی گھڑی”بنا کر تو پوری دنیا کے ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔
دنیا کے بڑے سائنس دان اور نوبل انعام یافتہ محققین نے یہ قیامت کی گھڑی بنائی ہے ۔اور انہی نے ایٹم بم بنایا ہے۔ لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اس گھڑی کا تصور پیش کرنے والوں میں وہ سائنس دان بھی شامل تھے، جنہوں نے دنیا کا پہلا جوہری بم تیار کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔جدید ٹیکنالوجی بھی تو سائنس دانوں کی مرہون منت ہے ۔پھر موسمیاتی تبدیلیاں بھی ان سا ئنس دانوں کے تجربات کا نتیجہ ہیں ۔اب دنیا کے یہ نوبل انعام یافتہ سائنس دان کس منہ سے دنیا کو مشورے دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سائنس دان ہم کو قیامت سے ڈرانے کے لیے” قیامت کی گھڑی” بنا کر منافقت کی چال چل رہے ہیں عوام اتنے سادہ نہیں ہیں ۔ہم اس تحریر کے ذریعے دنیا بھر کے سائنس دانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ عوام سے اپیلیں کرنے کی بجائے دنیا کو بچانے کے لیے خود ہی اپنا کردار ادا کریں۔
تحریر : اختر سردار چودھری