’’خواتین و حضرات کچھ ہی دیر میں طیارہ لندن کے گیٹ وک ایئرپورٹ پر اترنے والا ہے‘‘، میں کافی دیر سے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا یہ اعلان سنتے ہی الرٹ ہو گیا، کرکٹ سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کیلیے لندن ایک بہترین مقام ہے اور میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں۔
گزشتہ برس چیمپئنز ٹرافی کے دوران یہاں آنے کا موقع ملا تھا، اب پاکستان کے انگلینڈ سے ٹیسٹ کی کوریج کیلیے آیا ہوں، اس بار میں پہلے پاکستان سے امریکا گیا اور چند روز وہاں کے مختلف شہروں میں گذارے، اس کی روداد بھی جلد آپ کی خدمت میں پیش کروںگا، بعض فیملی معاملات کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا جب نیویارک سے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا مگر پھر لندن آ ہی گیا، اس وقت میں لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے منفرد کیپسول نما میڈیا سینٹر میں موجود ہوں جہاں میرے سامنے پاکستانی ٹیم پریکٹس کر رہی ہے، 2016 میں بھی یہاں گرین کیپس کا ٹیسٹ ہوا تھا جس میں شاندار فتح اور پش اپس اب بھی شائقین کرکٹ کو یاد ہوں گے۔
اس وقت آرمی ٹرینرز کے ساتھ ٹریننگ کا کھلاڑیوں کو بڑا فائدہ ہوا اور فٹنس اچھی ہو گئی، فتح کے بعد پش اپس سے ٹرینرز کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا، اب بھی پلیئرز کے حوصلے تو بلند مگر زمینی حقائق ہمیں زیادہ بلند توقعات وابستہ نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، 2سال قبل اور اب کی پاکستانی ٹیم میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس وقت بیٹنگ لائن میں مصباح الحق اور یونس خان جیسے کھلاڑی موجود تھے، اسپن ڈپارٹمنٹ کو ون مین آرمی یاسر شاہ نے سنبھالا ہوا تھا، مگر اب دونوں سینئر بیٹسمین ریٹائر ہو چکے۔
انجری مسائل کی وجہ سے یاسر بھی گھر بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر میچز سے لطف اندوز ہوں گے، سینئر کرکٹرز محمد حفیظ اور وہاب ریاض کو انضمام الحق کی سلیکشن کمیٹی نے منتخب نہیں کیا، کپتان سرفراز احمد سمیت اسد شفیق، محمد عامر اور اظہرعلی ہی ایسے کھلاڑی ہیں جو ایک بار پھر لارڈز کے تاریخی میدان میں ایکشن میں دکھائی دیں گے۔
اگر حسن علی انجری کے سبب نہ کھیل سکے تو راحت علی کی صورت میں پانچواں ایسا پلیئر ہو گا جو گذشتہ لارڈز ٹیسٹ کی ٹیم میں شامل تھا، بصورت دیگر 7 کرکٹرز کا یہاں ڈیبیو ہو گا، انگلینڈ کیخلاف کرکٹ کے گھر میں کھیلنے سے بڑے بڑوں کی سٹی گم ہو جاتی ہے، شاید اسی لیے میچ سے قبل کپتان سرفراز احمد کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھاتے دکھائی دیے کہ ’’اعتماد سے بغیر ڈرے اپنا اصل کھیل پیش کرو۔
ویسے تو اچھے نتائج کی امید ہے لیکن زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا ہار جائیں گے ناں لہذا کوئی ڈر ذہن میں نہ لاؤ‘‘ ایک طرف نوجوان کھلاڑی تھوڑے دباؤ کا شکار ہوں گے لیکن اسی کے ساتھ انھیں موقع بھی مل رہا ہے کہ اچھا کھیل پیش کرکے لارڈز کے آنرز بورڈ میں اپنا نام درج کرائیں۔
گوکہ لندن کا موسم خوشگوار مگر ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی ہیں جس سے پیسرز خصوصاً محمد عامرکو فائدہ مل سکتا ہے، وہ مکمل فٹ اور نیٹ سیشنز میں بہترین بولنگ کر رہے ہیں، گوکہ ان کے بعض حالیہ انٹرویوز سے ایسا تاثر ملا کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ سے اب لطف اندوز نہیں ہو رہے مگر اس وقت پاکستانی بولنگ لائن کے اہم ترین بولر وہی ہیں لہذا دل و جان سے عمدہ پرفارم کرنا چاہیے،محمد عباس نے بھی آئرلینڈ کیخلاف ٹیسٹ میں کنڈیشنز کا بہتر استعمال کرتے ہوئے 9 وکٹیں اڑائیں، ان سے بھی امیدیں وابستہ ہونگی۔
اسپن بولنگ کا ذمہ شاداب خان کو سنبھالنا ہے مگر وہ ٹیسٹ کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتے، اسی لیے ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ یاسر شاہ کی کمی پوری کر دیں گے، البتہ شاداب نے جس طرح محدود اوورز کی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مستقبل روشن ہو گا، پریکٹس سے قبل پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا، مجھے اس میں سرفراز احمد کا اعتماد دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی۔
وہ بغیر جھجکے بہترین انداز میں گورے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے، موسم کے بارے میں دلچسپ جواب نے تو قہقہے بھی بکھیرے، ایک کپتان میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب سرفراز میں موجود ہیں، وہ لارڈز میں ون ڈے سنچری بنا چکے اور اب ان کے پاس موقع ہے کہ بطور سینئر کھلاڑی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے یہاں ٹیسٹ میں بھی یہ اعزاز حاصل کریں۔
ابھی ابھی پریس باکس میں سابق کپتان وقار یونس بھی آئے ہیں انھوں نے کئی پاکستانی صحافیوں کو دیکھ کر کہا کہ ’’ارے واہ یہاں تو پاکستان جیسا ماحول ہے کئی ہم وطن آئے ہوئے ہیں‘‘، وقار کو بھی نوجوان کھلاڑیوں سے میچ میں اچھے کھیل کی توقع ہے ۔ اس وقت دنیا میں ٹیسٹ کرکٹ کی مقبولیت تیزی سے کم ہو رہی ہے مگر انگلینڈ میں ایسا نہیں، یہاں ٹیسٹ میچز میں بھی خاصا کراؤڈ آتا ہے۔
2016 کے لارڈز ٹیسٹ میں تو مجھے یاد ہے گراؤنڈ کے باہر شائقین کی لائنیں لگی ہوئی تھیں، اس بار بھی امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا، آئرلینڈ کیخلاف پاکستانی ٹیم سے جس کارکردگی کی توقع تھی گوکہ ویسی نہیں رہی مگر فتح بہرحال فتح ہی ہوتی ہے، اب ٹیم کو برطانیہ آئے ہوئے کئی دن گذر چکے، اس دوران وارم اپ میچز بھی کھیلے، کئی ٹریننگ سیشنز ہوئے لہذا اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کنڈیشنز سے ہم آہنگی کا مسئلہ ہے، اب بس کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی بات ہے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انگلینڈ ناقابل تسخیر نہیں، ایشز سیریز کے بعد اسے نیوزی لینڈ نے بھی مات دی، اس سے بڑی بات کیا ہو گی کہ کمزور ویسٹ انڈین ٹیم نے بھی گذشتہ برس لیڈز ٹیسٹ میں میزبان کو 5وکٹ سے ہرا دیا تھا، پاکستانی ٹیم کو یہ باتیں ذہن میں رکھتے ہوئے مثبت انداز اپنانا چاہیے، سرفراز کے ساتھ کوچ مکی آرتھر کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھائیں، امید ہے کہ گرین کیپس میچ میں عمدہ کھیل پیش کریں گے۔
پیشگوئی کے مطابق جمعرات کو ہلکی بارش کا امکان ہے، شائقین کی توقع ہوگی کہ موسم مداخلت نہ کرے اور ان کو اچھی ٹیسٹ کرکٹ دیکھنے کا موقع ملے، دیکھتے ہیں کون سا نیا کھلاڑی سنچری یا پانچ وکٹوں کا کارنامہ انجام دے کر آنرز بورڈ میں نام درج کراتا ہے، ہماری نیک تمنائیں گرین کیپس کے ساتھ ہیں۔