ایک دفعہ پھر اسلام آباد کو ”یرغمال”بنایا جارہا ہے۔ دھرنوں سے قوم کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگ چکا،اب دیکھیں 30 نومبر کو کتنے کا لگتاہے ۔خاںصاحب نے قوم سے مکمل ثبوتوں کے ساتھ 28 نومبر کی پریس کانفرنس میں انکشافات کا وعدہ کیا لیکن”دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا”۔ وہی پرانی باتیں ثبوت ایک بھی نہیں۔عارف علوی نے کہاکہ وہ ”ڈیٹا” تودیں گے مگر ثبوت فراہم نہیں کرسکتے۔ علوی صاحب کے ”انکشاف”کے مطابق 50 لاکھ ووٹ زیادہ پرنٹ کیے گئے جو نوازلیگ کوڈالے گئے لیکن الیکشن کمیشن نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ صرف 8 لاکھ ووٹ زیادہ پرنٹ ہوئے اورہر الیکشن میں کچھ زیادہ ووٹ ہی پرنٹ کیے جاتے ہیں۔
خاں صاحب نے فرمایا کہ پری پول دھاندلی ہوئی نہ پولنگ ڈے پر ،ساری دھاندلی پولنگ کے بعد آراوز نے کی ”۔عرض ہے کہ میں نے اپنی سروس کے دَوران بلدیاتی سمیت ہر الیکشن میں بطور پریذائیڈنگ آفیسر کام کیا ۔اِس لیے مجھے علم ہے کہ ہر پریذائیڈنگ آفیسر اپنے پولنگ سٹیشن کے نتائج کی مصدقہ کاپی ہر اُمیدوار کے پولنگ ایجنٹ کو دینے کاپابند ہوتا ہے۔ خاں صاحب اُنہی مصدقہ نقول کی بنیاد پر انتخابی نتائج کا جائزہ لے لیں ،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا ۔خاں صاحب نے فرمایاکہ وزیرِاعظم کی الیکشن والے دِن 11.20 پرکی جانے والی تقریرنے نتائج اُلٹ دیئے۔ اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر میںکہہ سکتی ہوں کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے بعد انتخابی نتائج پولنگ ایجنٹس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور 11.20 تک تو ہراُمیدوار مکمل نتائج سے آگاہ ہو چکا ہوتا ہے
اِس لیے یہ الزام بے معنی ہے ۔خاں صاحب کہتے ہیں کہ 2008ء میں 68 لاکھ ووٹ لینے والی نواز لیگ 2013ء میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ کیسے لے گئی؟۔جواباََ عرض ہے کہ 2002ء میں ڈیڑھ لاکھ ووٹ لینے والی تحریکِ انصاف 2013ء میں 78 لاکھ ووٹ کیسے لے گئی؟۔نوازلیگ نے تو تقریباََ دوگنے ووٹ لیے لیکن تحریکِ انصاف تو 50 گُنا سے بھی زیادہ ووٹ لے گئی ۔کیا یہ بھی دھاندلی کا ہی شاخسانہ ہے؟۔مکرّر عرض ہے کہ 2008ء میں ٹَرن آؤٹ 44فیصد اور 2013ء میں 52 فیصد رہا اور ووٹر کی تعداد بھی پہلے سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ زیادہ تھی ۔اِسکے علاوہ میاںبرادران جلاوطنی کاٹ کر الیکشن سے چنددِن پہلے پاکستان آئے اور افراتفری میں تمام حلقوں میں مناسب اُمیدوار بھی کھڑے نہ کرسکے جبکہ موجودہ انتخابات میں ہوم ورک مکمل اور میاں شہباز شریف کی پانچ سالہ محنت سب کے سامنے تھی
جس کا ثمر اُنہیں مل گیا۔ت حریکِ انصاف سے سوال ہے کہ اُس نے ویب سائیٹ سے تسنیم نورانی کی سَربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹی کی رپورٹ کیوں ہٹادی جس میں واضح طور پر لکھاہے کہ ٹکٹیں فروخت کی گئیں اور الیکشن میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ۔افلاطون نے کہا ”سخت کلام آگ کا وہ شُعلہ ہے جو اپنا داغ چھوڑ جاتا ہے ”۔خاں صاحب کی سخت کلامی اور الزام تراشی حدوں سے نکل چکی۔وہ جب تقریر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو ربّ ِ کریم کا یہ فرمان بھی بھول جاتے ہیں ”تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو لوگوں پر طعن اور برائیاں کرنے کا خوگر ہو”(الھمزة)۔لیکن خاں صاحب تو صرف طعنوں سے ہی کام لیتے ہیں اور بقول غالب
نکالا چاہتا ہے کام تُو طعنوں سے کیا غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تُجھ پر مہرباں کیوں ہو
جوکپتان صاحب کی ہاں میں ہاں ملائے وہ فرشتہ باقی سب ”بَونے اور بوزنے ۔اُنہوں نے پہلے توفخرالدین جی ابراہیم ،چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری اور نجم سیٹھی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے لیکن الیکشن ہارنے کے بعدسبھی بے ایمان ٹھہرے ۔خاںصاحب کی ضِدپر عدلیہ کی زیرِنگرانی انتخابات ہوئے لیکن انتخابات کے بعد خاںصاحب نے عدلیہ کے ریٹرننگ آفیسرز کے کردار کو ”شرمناک”قرار دے دیا۔جب سپریم کورٹ نے اِس بَدزبانی پر اُنہیں طلب کرلیا تو بڑے بھولپن سے فرمادیا ”مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ شرمناک گالی ہوتی ہے”۔19 مئی 2014ء کو جب محترم تصدق حسین جیلانی چیف جسٹس تھے تو خاںصاحب نے فرمایا ”اللہ کرے ملک کو تصدق حسین جیلانی اور ناصرالملک جیسے لوگ میسر ہوں ۔اُن پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
اِدھر تصدق حسین جیلانی ریٹائر ہوئے ،اُدھر خاں صاحب نے گِرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے فرمادیا ”جیلانی صاحب!آپ اچھے آدمی ہیں لیکن ہمیں آپ بطور چیف الیکشن کمشنر قبول نہیں ”۔اِن فرمودات کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے جسٹس بھگوان داس اور پھر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے چیف الیکشن کمشنر بننے سے صاف انکار کردیا اور اب اعلیٰ عدلیہ نے بھی الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ آفیسرز دینے سے صاف انکار کردیاہے ۔خاںصاحب کہا کرتے تھے کہ وہ شیخ رشید کو اپنا ”چوکیدار”رکھنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن اب وہی چوکیدار ہمہ وقت اُن کے پہلو میں پایا جاتا ہے۔
خاں صاحب نے تو اپنوں کو بھی نہیں بخشا ،جاوید ہاشمی بَددِل ہوکر تحریکِ انصاف چھوڑ گئے، خیبرپختونخوا میں اپنے اتحادی آفتاب شیرپاؤ کی جماعت کے وزراء پر کرپشن کا الزام دھر کر چھُٹی کرا دی لیکن کوئی انکوائری نہ ثبوت ۔محترم سراج الحق صاحب کو کہا ” وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کریں اور بتلائیں کہ آپ تحریکِ انصاف کے ساتھ ہیں یا نوازلیگ کے ساتھ”۔ مرنجاں مرنج امیرِ جماعت نے اپنے ساتھیوں کو تلقین کر دی کہ کوئی جواب نہیں دے گا۔اگر محترم سراج الحق کی جگہ کوئی اورہوتا تومعاملہ ”گَڑ بَڑ” ہوجاتا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے تو حکومت گرانے کے لیے ”ڈنڈبیٹھکیں”بھی لگانا شروع کردی تھیں۔
کپتان نے کہا ”میڈیا ہاؤسز لکھاری اور اینکرپرسنز ، بکاؤ مال اور ضمیر فروش ہیں۔آئی بی کو اِن کے ضمیر خریدنے کے لیے2 ارب70کروڑ روپے دیئے گئے لیکن اُنہیں یہ پتہ نہیں کہ کِس کو کتنا ملا” ۔جب صحافیوں نے ”صحافتی ڈنڈا”اُٹھایا تو شاہ محمود قریشی کے سمجھانے پر PFUJ کے صدر افضل بَٹ اور دیگر اراکین کی موجودگی میں فرمایا ”حکومت نے صحافیوں کو خریدنے کے لیے بھاری رقوم کی پیش کش کی لیکن صحافیوں نے غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی پیش کش کو ٹھوکر ماردی ”۔آخرمیں فقط اتناکہ خاںصاحب فرصت کے لمحات میںاپنی ”اداؤں”پر غور فرمالیں کیونکہ بہتری اسی میں ہے۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر