لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ برادر بزرگ، اتنا بڑا کہ دیگر صوبوں کو گود میں نہ بھی بٹھائے تو اُن کے سر پر دستِ شفقت ضرور رکھ سکتا ہے۔ جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو اسکے حصے بخرے کرنے کے وعدے وعید ہوتے ہیں۔ بالخصوص جنوبی پنجاب کو سابق بیورو کریٹ اور نامور کالم نگار شوکت علی شاہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مژدہِ جانفزا سنایا جاتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب اُنہیں الگ صوبہ دیا جائے گا۔ لاہور کے تسلط اور دست بُرد سے آزاد ہو جائینگے۔ سب اندھیرے چھٹ جائینگے۔ محرومیاں ختم ہو جائیں گی۔ لوگ آرام سے دُسہری آم چُوسیں گے، پونے گنے کا رس پی سکیں گے۔ عوام چونکہ فریبِ وعدہ فردا کے عادی ہو چکے ہیں، اس لیے منٹو کے منگو کوچوان کی طرح ’’نئے قانون‘‘ کا انتظار شروع کر دیتے ہیں اور آزمودہ کو آزماتے ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد ان پر ایک ہی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ ’’یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے۔‘‘ انکے نمائندوں نے لاہور میں اپنے محلات کھڑے کر رکھے ہیں۔ انکے بچے ایچی سن کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ فیشن کی دلدادہ بیگمات بھی اسی ماحول میں خوش رہتی ہیں…فراری بھی مال روڈ پر فراٹے بھرتی اچھی لگتی ہے۔ ’’ترنڈہ محمد پناہ‘‘ اور ’’بولے دی جھگی‘‘ میں جھک مارتی ہوئی بھلی نہیں لگتی، چنانچہ کوئی نہ کوئی عذر لنگ پیش کر دیا جاتا ہے…مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ نیلی چھتری والے کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ اس طرح معصوم مطالبے کو پانچ سال کے لیے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو طاقت اور اختیارات کے اعتبار سے ڈپٹی پرائم منسٹر کہا جا سکتا ہے۔ (GEO. POLITICAL ADVANTAGE) وٹو جیسا وزیر اعلیٰ ہو تو وہ وزیراعظم کا صوبے میں داخلہ تک بند کر دیتا ہے، جیسا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ میاں صاحب نے وزیر اعظم بے نظیر کو زچ کئے رکھا۔ جب سے ذوالفقار علی بھٹو کو کھر کی شکل میں ، تلخ تجربہ ہوا، ہر وزیر اعظم کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بے ضرر قسم کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا جائے جو مرکز کی منشا کے مطابق کام کرے، ’’حاضر جناب‘‘ ٹائپ ہو، بات کرتے وقت آنکھیں نیچے رکھے۔ کھر کے بعد حنیف رامے کا تجربہ بھی کچھ اتنا کامیاب نہ رہا۔ بھٹو نے ایک مرتبہ طنزاً پوچھا۔ سُنا ہے تم نے پنجاب میں ایک ہنری کسنجر (شاید حامد) بطور سیکرٹری رکھا ہوا ہے۔ اس پر وہ تُرت بولا۔ ’’آپ کے پاس بھی تو ایک ہنری کسنجر ہے۔ اس کا اشارہ رفیع رضا کی طرف تھا۔ بھٹو سمجھ گیا کہ پینٹر جوتوں سے باہر نکل رہا ہے۔ چنانچہ اس نے رامے کو کینوس کی طرف دھکیل دیا۔ بڑی سوچ بچار اورغور و خوض کے بعد ملتان کے مست ملنگ نواب کو یہ عہدہ تفویض کیا گیا۔ صادق قریشی میں باغیانہ جراثیم تو نہ تھے لیکن اسکی نااہلی اور تساہل پسندی بالآخر ’قائد عوام‘ کے زوال پر منتج ہوئی۔ الیکشن میں مسالا کچھ زیادہ لگ گیا۔ ہرچہ بادا باد ہو گیا۔ دھاندلی کیخلاف ملک گیر احتجاج ہوا اور نتیجتاً جنرل ضیاء نے ایک ہی جھٹکے میں عوامی وزیر اعظم کی کلائی مروڑ دی۔ آمریت میں وزارت اعلیٰ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ برگد کے درخت کی طرح ہوتی ہے جسکے نیچے کوئی پودا پَھل پُھول نہیں سکتا۔ چنانچہ جہاں پہلے ڈیڈی، ڈیڈی کی گردان ہوا کرتی تھی وہاں پتا جی کی صدائیں سُنائی دینے لگیں! گاڈ فادر کو معنوی اولاد مل گئی۔ تاریخ پرکڑی نگاہ رکھتے ہوئے مختصر مدت کیلئے میاں صاحب نے خانیوال کے بودلوں کے منشی غلام حیدر وائیں کو قلمدان تھما دیا۔ بطور حفظِ ماتقدم برادرِ خورد کو اس کا نگران مقرر کیا۔ وزیراعلیٰ وائیں تھا لیکن حکم شہباز شریف کا چلتا تھا۔ تمام تبادلے ، ترقیاں، تنزلیاں چھوٹے صاحب کرتے تھے۔ اختیارات ایک کے پاس تھے، انہیں استعمال دوسرا کرتا تھا؎ عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ مجھے گوجرانوالہ میں آئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ پتہ چلا MNA شہباز شریف سیلاب زدگان کی فہرستیں چیک کرنے پنڈی بھٹیاں کے نواحی گائوں میں پہنچ رہا ہے۔ کامران رسول کمشنر ، اظہر حسن ندیم، ڈی آئی جی ملک اقبال، ایس ایس پی اور میں خود، بھاگم بھاگ پہنچے تو وہاں ایک عجیب منظر دیکھا۔ سارا گائوں ایک دائرے کی شکل میں چوپال پر کھڑا تھا۔ شہباز شریف نے اے سی اقبال باجوہ کو ’’وانڑی منجھی‘‘ (ادوائین والی چارپائی) پر کھڑا کر رکھا تھا۔ ایک بوڑھی عورت نے شکایت لگائی کہ اس کا مکان سیلاب سے گر گیا ہے لیکن اے سی نے اس کا نام سیلاب زدگان کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ اتفاق سے چند روز قبل میں نے اس گائوں کا معائنہ کیا تھا۔ شکایت کنندہ کا گھر دیکھا جو صحیح حالت میں تھا۔ جب میں نے میاں صاحب کو بتایا کہ عورت نے غلط بیانی سے کام لیا ہے تو تمام گائوں بول اٹھا۔ یہ جھوٹی ہے! جب میاں صاحب خود وزیر اعلیٰ بنے تو ’’تھرتھلی مچ‘‘ گئی۔ غلغلہ ہائے الاماں بُت کدہ صفات میں۔ نوکر شاہی کی صفیں درہم برہم ہو گئیں۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب دس بیس افسر معطل یا بے عزت نہ ہوتے۔ اخباروں میں شہ سرخیاں لگتیں۔ صوبائی محتسب کا ہاتھ ظالم افسر کی گردن تک پہنچ گیا ہے۔ پنجاب میں ایک اور نوشیروان عادل پیدا ہو گیا ہے جس نے ظلم اورزیادتی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ شیر اور بکری نے ایک گھاٹ پانی پینا شروع کر دیا ہے۔ اشیائے خور و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ہیں۔ جرائم کا قلع قمع کردیا گیا ہے۔ ڈاکو اور لٹیرے ڈر خوف سے صوبہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ ’’راہی مسافر جنگل میں سونا اچھالتے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ تم کون ہو اور کدھر جاتے ہو‘‘؟ میاں صاحب کی آمد ہی بڑی دھانسو تھی۔ عددی اکثریت ’ق‘ لیگ کو توڑ کر فارورڈ بلاک کی شکل میں پوری کی۔ غلطی سے اپنی سیٹ گنوا بیٹھے تھے، اس کا ازالہ حکم امتناعی لیکر کیا۔ پانچ سال کا طویل ’’سٹے آرڈر‘‘! انڈر نائنٹین ٹیم کھڑی کی، ان سے پرویز الٰہی کے بھرتی کردہ چار ہزار کنٹریکٹ ملازمین کی فہرست مرتب کروائی اور پھر بیک جنبشِ قلم سب کو فارغ کردیا۔ مختلف کمپنیاں بنا کر ان کی جو تنخواہیں مقرر کیں وہ تو اکبر کے نو رتنوں کو بھی نصیب نہ ہوئی تھیں۔ صحافیوں کو لیکر اس سیکرٹریٹ پر چھاپہ مارا جو ان کاپیشرو بنوا گیا تھا۔ کچھ یوں تاثر دیا جیسے پرویز الٰہی کی چوری رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے۔ وہیں کھڑے کھڑے اسے I.T یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا۔ اعلان کی گرد بیٹھتے ہی یہ اسے اپنے تصرف میں لے آئے۔اس تناظر میں ڈیرہ غازی خان کے ایک سیدھے سادے سردار کا مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا۔ اسکے پاس نہ ربڑ کے لمبے بوٹ ہیں جنہیں پہن کر سیلابی پانی میں بے خطر کودا جائے، نہ چن چی رکشہ جس میں بیٹھ کر مخصوص پوز میں فوٹو کھنچوائے جائیں نہ ہی ’’لحنِ داودی‘‘ جس نے جالب کی نظموں کو ’’جلا‘‘ بخشی! چند روز تک بزدار صاحب کے مشیروں نے شہباز صاحب کی نقل کرنے کی کوشش کی لیکن نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت پڑتی ہے، چنانچہ اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیا ہے۔ جہاں تک امورِ سلطنت کا تعلق ہے، وہ بیورو کریسی پہلے بھی چلاتی رہی ہے اب بھی بطریقِ احسن چلتے رہیں گے۔ چیف سیکرٹری ان کی ٹیم اور I.G.P صوبے کوچلاتے ہیں۔ سیاست دان صرف سوانگ بھرتے ہیں۔ البتہ ایک بات کی لوگوںکو حیرت ہو رہی ہے۔ بزدار صاحب نے عمران خان سے مشورہ کئے بغیر عوامی نمائندوں کی تنخواہ میں ہوشربا اضافہ کر دیاتھا۔ ایک دم ممبران اسمبلی کی تنخواہیں تین گناہ بڑھا دی ہیں۔ اپنے لیے بھی بہت کچھ کیا ہے۔ اس اقدام پر عمران سخت برہم ہوئے۔ ایک بار تو بزدار لرز گئے تاہم ان کو اصلاح کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد سے وہ کئی فتنوں سے بچے ہوئے ہیں۔