تحریر: پروفیسر حافظ محمد سعید
ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو الگ وطن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وہ کون سے عوامل و محرکات تھے جو پاکستان کے قیام کا سبب بنے؟
آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں مارچ 1940ء کو کیوں اجلاس منعقد کیا؟
اس اجلاس میں قرارداد لاہور جو بعدازاں قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کیوں پیش کی گئی؟ نظریہ پاکستان کیا ہے…؟ اور پاکستان کی بقا … احیائے نظریہ پاکستان سے کیوں کر وابستہ ہے…؟یہ سب سوالات بہت اہم ہیںاور موجودہ حالات میں ان کے جوابات جاننا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ان سوالات کا تعلق تاریخ سے ہے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ برصغیر میں اسلامی ریاست کی بنیاد شہاب الدین غوری کے غلام قطب الدین ایبک نے1206ء میں رکھی جو 1857ء تک قائم رہی۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کا اپنی رعایا سے جو سلوک رہا، مورخین نے اسے مثالی دور قرار دیا ہے جبکہ ہندو مورخین نے مسلمانوں کے دور حکومت کو ظلم وعدوان،زیادتی ونا انصافی اور شمشیر وسناں کی حکمرانی سے تعبیر کیا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر مسلمانوں نے ظلم وناانصافی سے حکومت کی ہوتی تو آج بھارت کی سرزمین پر ہندو اتنی بڑی عددی اکثریت کے ساتھ نہ رہ رہے ہوتے۔ اس کے برعکس ہندوئوں نے کبھی بھی مسلمانوں کو دل سے قبول نہ کیااور جب بھی ان کوموقع ملا مسلمانوں کو جانی ومالی نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وجہ یہ تھی کہ ہندو بنیادی طور پر تنگ نظر اور متعصب قوم ہے۔ ابوریحان محمد بن احمد البیرونی جو ایک عرصہ تک ہندوستان میں بغرض تحقیق رہے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”کتاب الہند” میں لکھتے ہیں”ہندو غیروں کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔ جو شخص ان کی قوم میں سے نہیں اسے اپنے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ ایسی حالت ہے جوان کا ہر دوسری قوم سے رشتہ توڑ دیتی ہے۔” اور اب عصرحاضر کے ایک یہودی دانشور کی گواہی اگرچہ یہود اور ہنود فطری حلیف ہیں مگر ہندوئوں کی تنگ نظری کی وجہ سے یہودی دانشور ہنری کسینجر کو کہنا پڑا ”مسلمان اور ہندو کا ساتھ سینکڑوں سال کا ہے مگر وہ ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکے۔
وجہ یہ ہے کہ من حیث القوم ہندو کی شخصیت سات پردوں میں پنہاں اور مسلمانوں کا ظاہر وباطن کھلی کتاب کی طرح نہاںہے۔” اس تنگ نظری کی وجہ سے ہندوئوں کے دلوں میں مسلمانوں کیلئے کبھی بھی نرم گوشہ پیدا نہ ہو سکا۔عام ہندوئوں اور راجوں مہاراجوں نے مسلمانوں سے جو ظالمانہ و سفاکانہ سلوک روا رکھا اس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ مرہٹوں کا دور مسلمانوں کے لیے اتنا المناک تھا کہ قلم اس کو احاطہ تحریر میں لانے اور زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ 1857ء کے بعد جب انگریز کلّی طور پر ہندوستان کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے تو اس موقع پر بھی معدودے چند مستشیات کے ہندوئوں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے کیلئے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو سیاسی، مذہبی، سماجی، اور معاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے جو منصوبے بنائے ان میں سے ایک منصوبہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے ربع صدی بعد جب ابھی مسلمانوں کے زخم تازہ تھے ایک انگریزسرکاری ملازم ایلن آکیٹوین ہوم نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔ من جملہ دیگر مقاصد کے کانگریس کے قیام کا ایک مقصد یہ تھا کہ انگر یز اور ہندو باہم مل کر مسلمانوں کا مذہبی و معاشی استحصال، ان کی بچی کھچی طاقت اور ان کے سماجی مقام ومرتبہ کا خاتمہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ایلن آکٹیوین ہوم کا والد جوزف اس عقیدے کا حامل شخص تھا کہ انگریز اور ہندوئوں کے مفادات ایک ہیں لہذا دونوں قوموں کو مل جل کر رہنا ہو گا ۔ انگریز اور ہندوئوں کے مفادات ایک ہونے کا دوسرا مطلب مسلمانوں کے حقوق ومفادات پر ضرب کاری لگانا، انہیں تقسیم و تفریق سے دوچار کرنا اوران کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس ہمیشہ مسلمانوں کے لئے دو دھاری اور زہر آلود تلوار بنی رہی ہے۔ اس لئے کہ اس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر تھی۔ اس کے بعد ایک وقت آیا جب کانگریس کی زمام اختیار کلی طور پر ہندوئوں کے ہاتھ آگئی۔ انگریزوں کے براہ راست تربیت یافتہ ہندو نیتا ایک طرف شاطر اعظم میکائولی اور دوسری طرف چاکر اعظم چانکیہ کا دماغ رکھتے تھے۔
اس چانکیائی سیاست کا نتیجہ تھا کہ ایک عرصہ تک کانگریس نے مسلمانوں کو نیشنل ازم (ایک وطن ایک قوم)کے دل فریب نعرے میں الجھائے اور پھنسائے رکھا تاآنکہ کانگریس کا یہ مسلم دشمن چہرہ اور رخ وکردار اس وقت بالکل ہی عریاں ہو گیا جب 1935ء کے ایکٹ کے تحت انگریز نے ہندوستان میں نئی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات کی بنیاد پر 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ میں سے سات صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب جواہر لعل نہرو کانگریس کے صدر تھے۔ سات صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہونے کا زعم اور غرور اتنا زیادہ تھا کہ نہرو کے لئے اپنے مسلم دشمن جذبات اور احساسات کو چھپانا ممکن نہ رہا۔ طاقت اور کامیابی کے نشے میں سرشار نہرو کہنے لگے ”اب ہندوستان میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک برطانیہ اور دوسری کانگریس……تیسری کوئی طاقت نہیں” نہرو کا یہ بیان مسلمانوں کے وجود سے صریحاًاور کلیتہً انکار کے مترادف ، مسلم دشمنی کا مظہر اور اس بات کی علامت تھا کہ کانگریس خالصتاً ایک ہندو جماعت تھی جس کا مقصد مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ ”ایک وطن ایک قوم” کے نام پرمسلمانوں پر اپنی بالادستی قائم کرنا تھا۔ ایسے وقت میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے نہرو کے بیان پر سخت گرفت کرتے ہوئے کہا ”ہندوستان میں ایک تیسری طاقت بھی ہے اور وہ مسلمانوں کی طاقت ہے اس طاقت کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔” سات صوبوں میں کانگریس کی وزارتوں کے قیام کے موقع پر اھنسا (عدم تشدد) کا پرچار کرنے والے والے گاندھی بھی پیچھے نہ رہے۔ گاندھی ہندو قوم کے اہم ترین رہنما تھے جو کانگریس میں کوئی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود ہمیشہ اس کے فیصلوں اور پالیسیوں پر حاوی رہتے تھے۔ وہ سکھر کے دورے پر آئے تو انہوں نے وہاں کے مقامی ہندوئوں کو بھاشن دیتے ہوئے کہا ”انہیں تشدد یا عدم تشدد سے اپنا بچائو کرنا ہے لہذا ضروری ہے کہ مکے کا بدلہ مکے سے دیا جائے۔” سات صوبوں میں کانگریسی وزارتوںکے قیام کے ساتھ ہی ہندوئوں کی اصلیت،ذہنیت ا ور حقیقت کا آشکارا ہو گئی جہاں جہاں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے مکمل طور پر محروم، ان کی تہذیب و تمدن کو معدوم اور ان کے اسلامی تشحص کو مجروح و پامال کیا جانے لگا۔ کانگریس نے اس دوران جو مسلم کش اقدامات کئے ان میں سے چند ایک یہ تھے۔
1۔ بندے ماترم جیسے مسلم دشمن ترانے کو قومی ترانے کی حیثیت دے دی گئی۔
2۔ تعلیمی اداروں میں اردو کی جگہ ہندی نافذ کر دی گئی۔
3۔ گائے کے ذبیحہ پر حکماً پابندی لگا دی گئی۔
4۔ مسلمانوں کو ملازمتوں میں ان کے کوٹہ سے محروم کر دیا گیا۔
5۔ ودیا مندر سکیم جو دیومالائی ہندی خرافات پر مبنی تھی کا صوبہ مدھیہ پردیش میں اجراء کر دیا گیا
6۔ وہ صوبے جہاں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سرکاری سطح پر مسلم کش فسادات کو منظم کیا گیا اور فسادات سے متاثرہ مسلمانوں کیلئے انصاف کے حصول کے دروازے بند کر دیئے گئے۔
7۔ تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کو گاندھی کی پوجا ، کانگریس کے جھنڈے کو سلام اور پرارتھنا میں شرکت پر مجبور کیا گیا۔
8۔کئی علاقوں میں بلند آواز سے اذان کہنے کی ممانعت کر دی گئی اور مسلمانوں کو ملیچھ قرار دے کر کنوئوں سے پانی لینے سے محروم کر دیا گیا۔
کانگریس کے یک نقاطی مسلم دشمن ایجنڈے سے مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ابھی ادھوری آزادی ملی ہے اور کانگریس کا ہمارے ساتھ یہ رویہ و سلوک ہے جب ہندوستان مکمل ا زاد ہو گا اور کانگریس ہندوستان کے اقتدار و اختیار پرپوری طرح قابض ہو گی تب ہمارا کیا بنے گا…؟ ہمارا مستقبل کیا ہو گا…؟ہمارا دین، ہماری عزت و آبرو اور جان و مال کیوں کر محفوظ رہ سکیں گے…؟
اسی دوران لکھنو میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں بانی پاکستان محمد علی جناح جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے نے مسلمانوں کو اتحاد کا سبق دیا اور یہ بات باور کروائی کہ مسلمان اورہندو دو قومیں ہیں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن، زبان وادب، اسماء و القاب، فہم و اقدار، قاعدہ و قانون، ضابطہ اخلاق، رسوم ورواج اور تاریخ و روایت… سب الگ ہیں۔مسلمانوں کی طرف سے علیحدہ قوم ہونے کا یہ دعوی بہت موثر و مثبت اور جاندار ثابت ہوا۔کہاں وہ وقت تھا جب مسلمان خود کو اقلیت اور کانگریس ان کو ریوڑ سمجھتے ہوئے جدھر چاہتی ہانک کر لے جاتی اور کہاں یہ وقت آیا کہ مسلمان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ایک ایسی حقیقت، صداقت،قوت، طاقت اور جماعت بن گئے کہ انہیں نظر انداز کرنا، اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا کانگریس اور انگریزوں کے لئے ممکن نہ رہا۔مسلمانوں نے علیحدہ اسلامی ریاست کو اپنا نصب العین قرار دیا اور یہی نصب العین بعد میں مطالبہ پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔ مطالبہ پاکستان درحقیقت لاالہ کی تعبیر، شاہ ولی اللہ کے افکار، جماعت مجاہدین کے کردار،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے تصور، 1857ء کی جنگ آزادی کے شہدا کی قربانیوں اور تحریک خلافت کا تسلسل و ثمر تھا۔23مارچ 1940ء کو لاہور میں پیش ہونے والی قرارداداس تسلسل و ثمرکی پہلی منزل تھی۔ اس قرارداد نے مسلمانوں کی منزل طے کر دی، مقصد کا احساس روشن و واضح کر دیا، ان کی صلاحیتوں کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیا، شکوک وشبہات کے بادلوں کو صاف کر دیا اور مسلمانوں نے اپنی منزل کی جانب تیز گام و تیز رفتار چلنا شروع کر دیا۔
مارچ 1940ء کا مسلم لیگ کا اجلاس اس لحاظ سے بہت اہم تھا کہ اس کا آغازجمعة المبارک کے دن ہوا۔ برصغیرکے طول وعرض سے آئے مسلمانوں نے نماز جمعہ شاہی مسجد میں ادا کی اور پھر اسی مسجد کے بالمقابل نماز جمعہ کے فوراً بعد اجلاس شروع ہوا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی معرکة الآرا تقریر کے چند اہم نکات یہ تھےمیں خلوص دل سے ہندو مسلم اتحاد کا قائل ہوں جو مسلمان رہنما ہندو مسلم اتحاد کے داعی ہیں ان پربھی اعتماد کرنے کوتیار ہو ں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلہ میں کیا رہنمائی ہے…؟کیا یہ رہنما ہندو مسلم اتحاد کے لیے قرآن کریم اور احادیث سے بھی سرتابی کریں گے؟ اجلاس میں پیش کی جانے والی تاریخی قرارداد بہت لمبی چوڑی نہ تھی۔ اس قرارداد میں من جملہ دیگر باتوں کے تقسیم ہند کا مطالبہ ان الفاظ میں کیا گیا تھا کہ بنگال، آسام، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو اکٹھا کر کے ایک مسلم ریاست تشکیل دی جائے قرارداد کی منظوری پر کانگریس اور ہندو پریس نے اودھم مچا دیا، قرار داد لاہور کو قرارداد پاکستان کہہ کر مسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا، قیام پاکستان کو ناقابل عمل قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہندوستان کو کسی صورت تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ تاہم مسلمانوں کے ولولے مائل بہ پرواز، حوصلے مصائب سے بے نیاز تھے۔نتیجتاً اس قرارداد کے صرف سات سال بعد پاکستان…… خواب سے حقیقت بن کر منصہ شہود پر آگیا۔ صرف سات سال میں اتنے بڑے خواب کا شرمندہ تعبیر ہو جانا اورتصور پاکستان کا حقیقت بن جانا… بلاشبہ تاریخ عالم کا ایک منفرد واقعہ ہے۔
بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔ قراردادیں اور نعرے۔۔۔۔۔ بذات خود کچھ نہیں ہوتے۔ قراردادیں کیا ہوتی ہیں…؟ چند صفحات پر سیاہی سے لکھے کچھ پیراگراف۔ اصل چیز جذبہ و ولولہ، ہمت و حوصلہ اور عمل وکردار ہوتا ہے جو قراردادوں کو عملی جامہ پہناتا،قوموں کو کامیابی سے ہمکنار کرتا، انہیں منزل مقصود پر پہنچاتا، فتح و کامرانی سے ہمکنار کرتا اور دشمنوں کو زمین چاٹنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب جذبے مفقود، ولولے معدوم اور ارادے کمزور ہوں تو خوبصورت ترین اور قیمتی کاغذات پر لکھی قراردادیں…… ردی کے انبار اور فصیح وبلیغ اعلامیے بے عمل و کم ہمت قوم کی بے سود محنت ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح کھوکھلے نعروں سے سمندر کٹتے ہیں نہ پہاڑ سرہوتے ہیںکہ جب تک عمل نہ ہو۔
اگر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت مسلمان کیسے بیک وقت انگریز اور ہندوئوں سے ٹکرا گئے اور کیسے صرف سات سال کے عرصہ میں منزل مقصود کو پا گئے۔سچی بات ہے کہ یہ سب لاالہ الا اللہ کی برکت تھی ۔ لاالہ الا اللہ کی برکت سے کامیابی و کامرانی نے ان کے قدم چومے اور فتح و سرفرازی کا تاج ان کے سر پر سجا۔سچی بات یہ ہے کہ جس کلمے اور نظریئے کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا آج اسی کلمے پر عمل کرنے اور نظریہ کو حرزجان بنانے سے پاکستان کی بقا، تحفظ، استحکام اور اس کے ازلی دشمنوں کا مقابلہ ممکن ہے۔ کیا ہوا اگرآج دشمن زیادہ ہیں…! کیا ہوا اگرآج دشمن طاقت ور ہیں…!دشمن اس وقت بھی تھے۔۔۔۔۔ زیادہ بھی تھے۔۔۔۔۔ طاقت ور بھی تھے۔ وہ بھی ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کو مٹا دینے اور جھکا دینے کا عزم کئے ہوئے تھے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہو اور پاکستان قائم ہو۔ مگر دشمنوں کے خواب مٹی میں مل گئے، ارادے ٹوٹ گئے اور ان کے نہ چاہنے کے باوجود پاکستان بن گیا۔ جب پاکستان بنا اس وقت پورے ہندوستان میں صرف آٹھ کروڑ مسلمان تھے۔آج پاکستان کے غیوروجسور مسلمانوں کی تعداد اٹھارہ کروڑ ہے۔ آج دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کو مٹانے کے خواب دیکھنے والے خود مٹ جائیں گے اور پاکستان قائم و دائم رہے گا۔
مارچ 1940ء کے اجلاس کی کچھ باتیں بہت اہم تھیں جنہیں آج تقریباً فراموش کر دیا گیاہے۔ پہلی بات مسئلہ کشمیر ہے۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں جہاں برصغیر کے طول وعرض سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب مسلمان شریک ہوئے وہاں ریاست جموں کشمیر سے آنے والے ہزاروں مسلمان بھی شریک تھے۔ ان کے علاوہ اجلاس میں ریاست جموں کشمیر سے آنے والے 8رکنی نمائندہ وفد نے بھی شرکت کی تھی۔ اسی دوران ایک سیشن آل انڈیا سٹیٹس مسلم لیگ کا ہوا جس کی صدارت نواب بہادر یار جنگ نے کی۔ کشمیر سے آنے والے وفد کے ایک معزز ممبر پروفیسرایم اے عزیز کو سٹیٹس مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا ممبر منتخب کیا گیا جبکہ کشمیری وفد کے ایک ممبر مولوی غلام حیدر نے تقریر بھی کی تھی۔ وفد نے اہل کشمیر کی طرف سے مسلم لیگ کی تمام پالیسیوں، فیصلوں اور قرارداد لاہور کی نہ صرف بھرپور طریقے سے تائید کی بلکہ واپس جا کر مسلم لیگ کے پیغام کو ریاست کے کونے کونے میں پہنچایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ 1940ء میں ہی اہل کشمیر نے ہندوستان میں قائم ہونے والی متوقع مسلم ریاست (پاکستان)سے اپنا ناطہ و تعلق اور رشتہِ اخوت ومحبت جوڑ لیا تھا۔ دوسری بات مسئلہ فلسطین ہے۔ مسلم لیگ کے اجلاس کے آخری روز کا پہلا سیشن 24مارچ بروز اتوار صبح گیارہ بجے قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں شروع ہواتو بانی پاکستان کرسی صدارت سے اٹھے اور اعلان کیا کہ اب مسئلہ فلسطین کے بارے میں عبدالرحمن صدیقی قرارداد پیش کریں گے۔ عبدالرحمن صدیقی قاہرہ میں ہونے والی فلسطین کانفرنس میں شرکت کر کے ہندوستان واپس پہنچے تھے۔ مسئلہ فلسطین کے بارے میں پیش کی جانے والی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ جنگ عظیم اول کے موقع پر ہندوستانی مسلمانوں سے حصول تعاون کے جو وعدے کئے گئے اب مسئلہ فلسطین ان وعدوں کی روشنی میں حل کیا جائے۔ قرارداد میں حکومت برطانیہ کو انتباہ کیا گیا تھا کہ عربوں کو مرعوب کرنے اورانہیں اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے مقدس سرزمین پر اپنی فوجوں کی موجودگی سے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں اور اس وقت کی مسلم لیگ کے قائدین کے دل اپنے مظلوم کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ وہ ان کے مسائل و معاملات سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کے حل کے لئے ہر جگہ اور ہر موقع پر آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ پس اب احیائے نظریہ پاکستان کاتقاضاہے پاکستانی عوام، علمائ، دانشوروں، کالم نگاروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین و کارکنان کا فرض ہے کہ وہ جب بھی 23مارچ کے حوالے سے گفتگو کریں تو مسئلہ فلسطین کا ذکر بھی کریں اور اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ قدیمی و پرخلوص محبت و عقیدت کا ذکر کرنا نہ بھولیں۔مارچ 1940ء کے اجلاس کی ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے علیحدہ ریاست کے مطالبہ کی سب سے زیادہ تائید وتوثیق ان ریاستوں اور صوبوں کے مسلم لیگی نمائندوں نے کی تھی جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ یہ مسلمان کانگریس کے ڈھائی سالہ وزارتی دور میں ہندوئوں کی تنگ نظری، تعصب،اسلام دشمنی اور عزتوں کی پامالی کے بھیانک واقعات کا تجربہ ومشاہدہ کر چکے تھے اور جان چکے تھے کہ ہندو کبھی بھی ان کو عزت وآبرو اور دین وایمان کی حالت کے ساتھ نہ رہنے دیں گے۔اجلاس میںبعض نمائندے ہندوئوں کے مظالم کی داستانیں سناتے رو پڑے تھے جس سے پورے اجلاس کا ماحول سوگوار اور اشکبارہو گیا تھا۔ تب وہ صوبے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے ان کے نمائندوں نے اپنے مظلوم اور ستم رسیدہ بھائیوں کو یقین دلایا تھا کہ جب آزاد اسلامی ریاست قائم ہو گی تو ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، ان کے دکھوں کا مداوا ، ان کے زخموں پر محبت و ہمدردی کا مرہم رکھا جائے گا اور ان کی آزادی کے لئے بھرپور کوشش کی جائے گی۔ یہ وعدے و معاہدے تھے جو ہندوستان بھر سے آئے مسلمانوں نے اسلام کی عظمت وہیبت رفتہ کی شاہد شاہی مسجد کے بالمقابل ایک دوسرے سے کئے۔ ہندوستان میںرہ جانے والے مسلمانوں نے اپنے وعدے پورے کر دیئے۔
پاکستان کے قیام کے لئے سب کچھ قربان کر دیا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ آزاد ہونے کے بعد ہم نے ان کے لئے کیا کیا ہے؟ وہ لوگ آج بھی پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا بھگت رہے ہیں مگر ہمارے حکمران بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے لئے بے تاب وبے قرار ہیں۔ حالانکہ بھارتی حکمرانوںکی اسلام اور پاکستان دشمنی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ نظریہ پاکستان کے اس وقت بھی دشمن تھے…… اورآج بھی دشمن ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم بھی احیائے نظریہ پاکستان کا عہد کریں تاکہ پاکستان مضبوط ہو، اس لئے کہ مضبوط پاکستان ہی بھارت میں رہ جانے والے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
تحریر : پروفیسر حافظ محمد سعید
امیر جماعة الدعوة پاکستان
برائے رابطہ : ارشاد احمد ارشد
0323-4218012