بھارت میں لائف لائن نامی ایک ٹرین میں قائم اسپتال نے پسماندہ اور غریب لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا ہے۔
اس حوالے سے بھاوری دیوی نامی ایک ان پڑھ مزدور پیشہ خاتون نے بتایا کہ جب گزشتہ ماہ اس کی سماعت کی حس ختم ہوئی تو وہ سمجھیں کہ موت کے منہ میں جارہی ہیں جس پر وہ مغربی بھارت کی ریاست راجستھان میں واقع اپنے دوردراز گائوں کے سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے گئیں مگر اس اسپتال میں اسپیشلسٹ موجود نہ تھا۔
قریب ترین پرائیوئٹ اسپتال پڑوس کی ریاست، گجرات میں تھاجس کے لیے بھاوری دیوی کو بتایا گیاکہ سرجری پر پچاس ہزار بھارتی روپے خرچ ہوںگے۔
بھاوری دیوی کے مطابق اس کے پاس تو علاج کے لیے پانچ ہزار روپے بھی نہ تھے اور وہ مایوسی میں واپس اپنے گھر واقع جیلور آگئی۔ چند روز بعد یہ خبر آئی کہ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز یہاں آرہے ہیں اور اسے بھی مفت علاج ملے گاجس کے بعد اپریل کے اوائل میں ،سات کوچز پر مشتمل لائف لائن نامی ٹرین وہاں پہنچی جسے ایک اسپتال میں تبدیل کیا گیا تھا ۔
یہ ٹرین کم اسپتال گزشتہ ستائیس برس سےبھارت بھر میں ایسے علاقوں میں جہاں دیوی جیسے لوگ رہتے ہیں اور صحت عامہ کی سہولت جہاں میسر نہ وہاں علاج فراہم کررہی ہے۔
غیر منفعت بخش ادارے امپکیٹ انڈیا فائونڈیشن کے چیف آپریٹنگ آفیسر ڈاکٹر راجنیش گھور نے بتایا کہ لائف لائن 1991میں شروع ہوئی اور اب تک بارہ لاکھ لوگوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کرچکی ہے ۔
ایک ایسے ملک میں جہاں صحت پر مجموعی ملکی پیداوار کا صرف ایک فیصد خرچ کیا جاتا ہو، جو دنیا میں کم ترین ہے ،وہاں ٹرین میں قائم یہ اسپتال اس کمی کو پر کررہا ہے۔
دیوی کی طرح بھارت کے غریب مریض تباہ حال اور ناقابل بھروسہ سرکاری اسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں یا پھر اپنے قیمتی اثاثے فروخت کرکے نجی اسپتالو ں سے اپنا علاج کراتے ہیں۔
مودی حکومت نے اس سال فروری میں ایک اسکیم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد ہیلتھ انشورنس اسکیم کا دائرہ کار پچاس کروڑ افراد تک وسیع کرنا ہے تاہم ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکے گاجب تک صحت عامہ کا نظام ڈرامائی طور پر بہتر نہ ہوجائے۔
اس وقت تک لائف لائن ایکسپریس جیسا آپشن ہی معاون ثابت ہوگا۔آسمانی بلو رنگ کی ٹرین جیلور کے ایک کم استعمال ہونے والے اسٹیشن پر پارک کی گئی ہے اورگمان ہوتا ہے کہ کوئی نئی ٹرین سروس شروع ہوئی ہے لیکن اس کی طبی سہولتیں بہت سے سرکاری اسپتالوں کے لیے حریف ثابت ہورہی ہیں۔
اس ٹرین اسپتال میں بیس افراد پر مشتمل نیم طبی عملہ موجود ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر ڈاکٹرز رضاکارانہ بنیادوں پر اپنی خدمات دیتے ہیں اور ان کا تعلق قریب کے میڈیکل کالجز اور اسپتالوں سے ہوتا ہے۔
یہ کسی بھی ضلع میں ایک ماہ تک علاج کی سہولت فراہم کرتی ہے اور اس دوران موتیےکے آپریشن سے لیکر کینسر ، تالو اور ہڈیوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر راجنیش گھور نے کہا کہ ہمارا مقصد ملک کے سرکاری صحت کے نظام سے مقابلہ کرنا ہے ، ہمارے پاس ایک سو لائف لائن ایکسپریس نہیں، تاہم ہم نے ایک اور ایسے ہی ٹرین کا آغاز کیا ہے تاکہ اگلے چھ ماہ میں شمالی اور شمال مشرقی بھارت کو کورکرسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بھارتی وزیرریلوے پیوش گویال نے ہمیں دوسرا ٹرین دینے سے اتفاق کرلیا ہے۔
اس ٹرین ہیلتھ سروس سے نہ صرف مریضوں بلکہ رضا کار اور میڈیکل کے طالب علموں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور انھیں کمیونٹی ورک کے دوران اپنی مہارت میں اضافے کا موقع بھی میسر آرہا ہے۔