تحریر : طارق حسین بٹ
جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد مجھے پی پی پی کے جنرل سیکرٹری سردارلطیف کھوسہ سے ابو ظبی ائر پورٹ پر انقلاب کے موضوع پر طویل گفتگو یار آ رہی ہے ۔سردار لطیف کھوسہ ایک علم دوست شخصیت ہیں اور علم سے ان کی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔وہ اٹارنی جنرل،وفاقی وزیر اور سابق گورنر ہونے کے ناطے سیاست میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں۔میرا ان سے سوال یہ تھا کہ پاکستان میں کرپشن اور نا انصافی کے خلاف عمران خان کی تحریک کیا کسی نئے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے یا اسے عام سیاسی سرگرمیوں سے منسوب کیا جانا چائیے جس کا زور وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ٹو ٹتا چلا جائیگا؟ کیا عمران خان پاکستانی عوام کو کسی نئے انقلاب کیلئے تیار کر سکیں گئے یا ان کی آوازصحر بصدا ثابت ہو گی ؟ان کا جواب تھا کہ عمران خان ایک بلبلے کی مانند بیٹھ جائیں گئے اور لوگوں میں مایوسی کا باعث بنیں گئے۔ مجھے ان سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی کیونکہ عمران خان کی کامیابی سے ان کی اپنی جماعت پی پی پی کیلئے سیاسی میدان تنگ ہوجانے کا امکان تھا۔
میرا ان سے استدلال تھا کہ دنیا میں برپا ہونے والے سارے انقلابات کا پسِ منظر ، حالا ت واقعات اوراس کے اسباب مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ہر انقلاب اپنے وطن، اس کی ثقافت اور اس کے رسم و رواج کا پابند ہوتا ہے اور اسی دائرے میں رہ کر عوام کو انقلاب کیلئے تیار کرنا ہوتا ہے۔فرانس کے انقلاب کا موازنہ ایران کے انقلاب سے کرنا مناسب نہیں ہے اور نہ ہی چین کے انقلاب کا موازنہ سائوتھ افریکہ کے انقلاب سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان سب کے زمینی حقائق ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے انھیں ایک ہی عینک سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جس طرح وہ انقلابات برپا ہوئے تھے انہی کی پیروی میں نئے انقلاب کو برپا کیا جائے کیونکہ عوام کی سوچ،ان کا اندازِ زیست اور ان کاثقافتی ورثہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی ملک کے عوام اپنے رویوں میں بھی دوسرے ممالک کے عوام سے مختلف ہوتے ہیں۔ان میں مذہبی سوچ،اعتقادات اور علاقائی ایقان کے ساتھ ساتھ موسموں کا تغیر ،آب و ہو، اور جغرافیائی محلِ وقوع بھی اپنا الگ اثر رکھتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود ایک بات تو بہر حال ان سب انقلابات میں مشترک تھی کہ یہ سارے انقلابات سٹیٹسکو کے خاتمے اور عوامی حاکمیت کے قیام کے فلسفے کے گر دگھومتے تھے۔ان انقلابات کا مقصد نا انصافی اور ظلم و جبر کا خاتمہ تھا اگر چہ ان کی اشکال مختلف تھیں۔ ان انقلابات سے فکری راہنمائی تو ضرور لی جا سکتی ہے لیکن انھیں من و عن کسی بھی جگہ برپا نہیں کیا جا سکتا۔میرا مزید یہ کہنا تھا کہ کبھی کبھی زمین انقلاب کیلئے زرخیز ہوتی ہے اور عوام ذ ہنی طور پر انقلاب کیلئے تیار ہوتے ہیں لہذا کوئی قائد پردہِ غیب سے سامنے آ کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انقلابی فضا کو تخلیق کر کے عوام کو اس کیلئے تیار کیا جاتاہے ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ یہ دونوں راہیں انتہائی دشوا رگزار ہوتی ہیں اور سخت صبر و تحمل کی متقاضی ہوتی ہیں۔ان دونوں راہوں کے قائدئن تاریخ ساز شخصیات کا مقام ھاصل کرتی ہیں اور دنیا کیلئے رول ماڈل بنتی ہیں۔ فرانس ،چین اور روس کے انقلابات پہلے ضمرے میں آتے ہیں کیونکہ ظلم و جبر اپنی انتہائوں کو چھو رہا تھا اور انقلاب عوام کے دلوں کی پکار تھی۔
زارِ روس کا جبر،چیانگ کائی شیک کا جبر اور پھر فرانس میں اشرافیہ کا جبر انسانیت کیلئے کسی بھی تازیانے سے کم نہیں تھا۔عوام جابرانہ اندازِ حکمرانی سے نجات چاہتے تھے لہذا جب کسی قائد نے اس نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تو فدائین کی ایک جماعت اس کی ہمنوا بن گئی۔قائد کا امتحان در حقیقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ عوام کو اپنے نظریے کا حامی بنا کر انھیں اپنے نظریے کے ساتھ منسلک کر لیتا ہے اور پھر عوامی حما ئت سے اپنے نظریے کو پورے ملک میں پھیلا دیتا ہے۔قائد کی آواز مضبوط ہو جائے تو اس کا حلقہ اثربھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔قائد کا ہاتھ چونکہ عوام کی نبض پر ہوتا ہے اس لئے وہ عوام کو اپنے نظریے کے ساتھ منسلک کرتا چلا جاتا ہے۔در اصل قائد کا نعرہ اتنا پر کشش ہوتا ہے کہ عوام اس میں ایک نئی زندگی کی نوید دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔
عوام حقیقی معنوں میں انصاف ،برابری اور انسان دوستی کے متوالے ہوتے ہیں۔ان کی روح سچے نظریات کا مسکن ہوتی ہے لہذا مستقل اقدار اور عدل و انصاف کی خاطران کی اپنی جان کی قدرو منزلت کم ہو جاتی ہے۔ان کی نگاہ میں قائد کا نظریہ اور اس کی افا دیت ان کی اپنی زندگی سے زیادہ قیمتی قرار پاتی ہے اور جب کوئی نظریہ انسانی جان سے زیادہ قیمتی ہو جائے تو وہیں سے انقلاب کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ قائد کی ثابت قدمی ہی کسی انقلاب کی کامیابی کی کلید ہوتی ہے جسے عوام اپنی حمائت سے تقویت عطا کرتے ہیں۔ روس ،چین اور فرانس کا انقلاب اسی مد میں آتا ہے جہاں عوام صدیوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے بے تاب تھے۔مذہب کی طا قت سے انکار کرنا تو کسی بھی انسان کیلئے ممکن نہیں ہے کیونکہ مذہب دنیا کی طاقتور ترین چیز کا نام ہے اور دنیا کے سارے اخلاقی قوانین کسی نہ کسی انداز میں مذہب ہی کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔
مذہب کی خاطر جان دینا اس لئے بھی باعثِ کشش ہوتاہے کہ اس میں اخروی زندگی میںنجا ت کا نظریہ پنہاں ہوتا ہے۔ دنیا کے سارے نیک اعمال کا جذبہ محرکہ اس یقین میں پنہاں ہوتا ہے کہ انسان کے نیک اعمال کا صلہ موت کے بعد اس زندگی میں ملے گا جب میزانِ عدل قائم کی جائیگی اور نیک اعمال کے حامل افراد جنت کے حقدار ٹھہریں گئے۔جنت کا تصور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب میں بھی یکساں طور پر پایا جاتا ہے تبھی تو ہر مذہب کے ماننے والے جنت کے خواہش مند ہوتے ہیں ۔اسلام چونکہ دنیا کا جدید ترین مذہب ہے اور اس کے ماننے والے دوسرے مذاہب کی نسبت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں اس لئے اپنے مذہب کی حاکمیت اور اس کے غلبے کے خواب بھی دیکھتے رہتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان کی خواہشات کا منہ چڑھا تے ہیں۔
امریکہ اور یورپ سے مسلمانوں کی مخا صمت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ممالک اسلام کے نظامِ حکومت کو کسی بھی طور برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اسی لئے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے زوال کے بعد کئی عشروں تک مسلمان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے اور دنیا میں ان کا کوئی مرتبہ اور مقام نہیں تھا۔دونوں عالمگیر جنگوں میں اتحادیوں سے شکست خوردہ ہونے کے بعد ان کیلئے اپنا وجود قائم رکھنا بھی ممکن نہیںتھا ۔ایک وقت کی عظیم اسلامی مملکت اب چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہو چکی تھی اور ان ممالک کے حکمران امریکہ اور یورپ کے حاشیہ بردارتھے ۔ ان حا لات میں ایران کے اندر آئیت اللہ روح اللہ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب کا نعرہ کسی دیوانے کی بڑ سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
ساسانی تحت و تاج کا وارث اور مغرب کی آنکھ کا تارا رضا شاہ پہلوی حکمرانی کی مسند پر جلوہ افروز ہو اور وہاں پر اسلامی انقلاب کے نعرے مقبول ہو جائیں کیسے ممکن تھا ؟لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ ایک طویل جدو جہد کے بعد امام خمینی کے اس خواب نے حقیقت کا جامہ پہنااور شاہِ ایران کو جلا وطن ہونا پڑا اور پھر جس کسمپرسی میں اس کی زندگی کا خا تمہ ہوا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ جدید دنیا میں کہیں کوئی انقلاب مذہب کے نام پر وقوع پذیر ہوا ہو۔انقلابِ ایران وہ پہلا انقلاب ہے جس نے اسلامی دنیا میں اسلامی سوچ کو فروغ دیا اور علماء کی طاقت کا احساس اجاگر کیا۔
اس انقلاب کے بعد مذہبی طاقتیں پوری دنیا میں فعال ہو گئیں اور سارے اسلامی ممالک اسلامی فکر کے سامنے سر نگوں ہوتے چلے گئے۔امام خمینی کا کمال یہ ہے کہ اس نے مروجہ انقلاب کے مفہوم سے ہٹ کر ایک علیحدہ انقلاب کا مفہوم پیش کیا اور عوام کو اس بات پر قائل کیا کہ ان کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی نجات ان کی پیش کردہ انقلابی فکر میں ہے ۔ان کی جلا وطنی اور ان کی انقلاب سے کمٹمنٹ نے ان کی شخصیت کا جو سحر طاری کیا وہ ١٩٧٩ میں اس انقلاب کی صو رت میں سامنے آیا جسے دنیا انقلابِ ایران کے نام سے یاد کر تی ہے۔کیا پاکستان میں انقلاب کو اسی طرز پر برپا کیا جا سکتا ہے؟
تحریر : طارق حسین بٹ