تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
باادب، باملاحظہ، ہوشیار، قائدِ انقلاب شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کینیڈا سے پاکستان کے دورے پرتشریف لاچکے ہیں۔ مرشد کے دَورے کے اغراض و مقاصد تو معلوم ہوسکے نہ یہ پتہ چل سکاکہ دورہ کتنے دنوںپر محیط البتہ یہ طے کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کی طرح ”آنیاں،جانیاں” ہرگزنہیںہوں گی اور اِس باروہ حکمرانوںکا ”مَکّوٹھَپ” کرہی جائیںگے۔ کچھ بدبخت کہتے ہیںکہ مُرشد ”دیت” کی اگلی قسط کی وصولی کے لیے آئے ہیں۔ویسے تو ہم ایسی شَرانگیز باتوںپر کبھی دھیان نہیںدیتے لیکن اب ”اندرواندری” ہمیںبھی کچھ شَک ساہونے لگاہے کیونکہ مُرشد نے لاہورایئرپورٹ پراترتے ہی ”کھڑاک” کردیا کہ ”افواجِ پاکستان اوررینجرز کوکہنا چاہتاہوں کہ آپ ابھی تک صرف سندھ کے اختیارات پراڑے ہوئے ہیں ۔14 لاشیں اور 100 زخمی لاہورمیں بھی آپ کاانتظار کررہے ہیں ۔پنجاب کے قاتل حکمرانوںکے خلاف ایکشن کب ہوگا؟” ۔ اُنہوںنے یہ بھی فرمایاکہ ”میرے جسم میںجب تک خون کاایک قطرہ بھی موجودہے ،سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوںسے بدلہ لوںگا”۔ ہمیںیہ توپتہ نہیںکہ 36 مختلف قسم کی ادویات استعمال کرنے والے مُرشد کے جسم میںخون کے کتنے قطرے باقی بچے ہیں البتہ ہم اُنہیں یقین دلاتے ہیںکہ جب تک اُن کے جسم میں خون کاآخری قطرہ رہے گا ،ہم اُن کا ساتھ دیںگے۔
مُرشد نے اپنے آستانۂ عالیہ پر شیخ رشیدکو شرفِ ملاقات بخشنے کے بعدفرمایا کہ موجودہ نظام میںدہشت گردی کاخاتمہ نہیںہو سکتا۔ وہ اِس نظام کے خلاف انقلاب لانے آئے ہیں۔ ہمیںمُرشد کے ارشاداتِ عالیہ سے مکمل اتفاق ہے اورہم تومُرشد کے استقبال کے لیے لاہور ایئرپورٹ پربھی جاناچاہتے تھے لیکن ہماری یہ خواہش ناتمام ہی رہی کیونکہ ایک تو ” ٹُٹ پَینی” سردی ہی بہت تھی اوروسرے راناثناء اللہ کاخوف جوآجکل ایک دفعہ پھرقانون اورداخلہ کی وزارت سنبھالے ہوئے ہیں، اُنہیںجب بھی وزارت ملتی ہے تووہ کوئی نہ کوئی ”کھڑاک” ضرورکر دیتے ہیں۔ اِس لیے حفظِ ماتقدم کے طورپر ہم نے ایئرپورٹ نہ جانے میںہی عافیت جانی البتہ نیوزچینلز پراُن کا”رُخِ روشن دیکھ کر باربارسُشماسراج کی طرح ”پَرنام” ضرورکرتے رہے۔ مُرشدتو واقعی پاکستان میںاسلامی انقلاب لاناچاہتے ہیںلیکن ہمارے ارسطوانہ ذہن میںپتہ نہیںکیوں باربار شکوک وشبہات کے سنپولیے جنم لیتے رہتے ہیں ۔وجہ شایدیہ ہوکہ پاکستان میںروٹی ،کپڑا اورمکان ملے نہ ملے انقلابی ضرور مِل جاتے ہیں ۔ہمارے ہاںتوہرقسم کے چھوٹے بڑے انقلابیوںکا ”اتواربازار” لگاہے۔
جب بھٹومرحوم سوشلسٹ انقلاب کانعرہ لگاکر اقتدارمیں آئے۔ تب ہم یونیورسٹی میںزیرِتعلیم تھے اور گلے پھاڑپھاڑ کر”ایشیاء سبزہے” کے نعرے لگاتے رہتے تھے جبکہ بھٹوکے جیالے (سُرخے) ایشیاء کوسُرخ کرنے پرتُلے رہتے۔ پھرہوا یوںکہ ایشیاء تونہیںالبتہ پاکستان ضروربھٹو کے خونِ ناحق سے سُرخ ہوگیااورجنرل ضیاء الحق اسلامی انقلاب کانعرہ لگاکر میدانِ سیاست میںکودپڑے ۔اُن کے دَورِحکومت کاعالم یہ کہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت نے
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بَن نہ سکا
ضیاء الحق اسلامی انقلاب لائے بغیرہی فضاؤںمیں اللہ کوپیارے ہوئے توقوم کچھ عرصہ تک ”بی بی جمہوریت” کے مزے لوٹتی رہی لیکن شائد قوم کے ”بلغمی مزاج” کوجمہوریت راس نہ آئی اِس لیے پرویز مشرف مسندِ اقتدارپر قابض ہوگئے ۔اُنہوںنے اقتدارپر قبضہ کرتے ہی کُتّوںکے ساتھ تصویریں کھنچواکر قوم کویہ پیغام دیاکہ وہ ”لبرل انقلاب” کے داعی ہیں۔اُن کے دَورِ حکومت میںایوانِ صدرمیں رقص وسرور کی محفلیں بھی سجتی رہیںاور وہ خودبھی طبلے سارنگی پرلہک لہک کرگاتے رہے ۔اسی دوران ایم ایم اے کی صورت میں دینی جماعتوںکا اتحادوجود میںآیا جس نے ”کتاب” کے انتخابی نشان پر2002ء کے عام انتخابات میںحصّہ لیا۔
ایم ایم اے کامنشور پاکستان میںمکمل اسلامی انقلاب لاناتھا۔ قوم نے اِس مذہبی اتحادکو پاکستان کی تاریخ میںپہلی بارفقید المثال کامیابی سے ہمکنارکیا ۔خیبرپختونخوا میںایم ایم اے کودوتہائی اکثریت ملی اورمرکز میںمولانافضل الرحمٰن وزیرِاعظم تونہ بن سکے لیکن قائدِحزبِ اختلاف ضروربن گئے ۔اسلامی انقلاب کے یہ داعی اگرخیبرپختونخوا میںمکمل اسلامی انقلاب لے آتے توآج شائد دیگرصوبوں میںبھی حالات مختلف ہوتے اورلوگ دین کی طرف راغب ہوجاتے لیکن ہوایوں کہ مولاناحضرات ”حجروں” سے نکل کرلینڈ کروزروںپر سوارہو گئے اورقوم کااسلامی انقلاب کاخواب ادھوراہی رہا ۔2008ء کے انتخابات سے پہلے ہی ایم ایم اے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوگئی۔ جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیااور مولانافضل الرحمٰن کی ایم ایم اے عبرت ناک شکست سے دوچارہوئی۔ یوںتو ہمارے عمران خاںصاحب کافی عرصے سے سیاست کو”ٹھونگے” ماررہے تھے لیکن اصل انقلابی کے روپ میںوہ اکتوبر 2011ء میںسامنے آئے اورآتے ہی چھا گئے۔
وہ اپنی ”سونامی” کی زلفِ گرہ گیرکے ایسے اسیرہوئے کہ سُدھ بُدھ گنوابیٹھے ۔اُنہوںنے غیرپارلیمانی زبان اور”میوزیکل کنسرٹ” کوایسا رواج دیاکہ اب کسی ایسے جلسے میں”کَکھ” مزہ نہیں آتا جس میں”میوزیکل کنسرٹ” نہ ہو، جماعت اسلامی کے جلسے توہوتے ہی ”پھُسپھسے” ہیں۔ خاںصاحب کی” سونامی” توپتہ نہیںروٹھ کے کہاںچلی گئی البتہ آجکل وہ ”میڈم دھاندلی” کے عشق میںمبتلاء ہیں ۔یہ دھاندلی بھی ایسی ”بے وفا”کہ ہاتھ ہی نہیںآتی۔ اپنے یہ کپتان صاحب بھی عجیب کہ نجی زندگی ہویا سیاسی ،کسی ایک جگہ ٹِک کربیٹھتے ہی نہیں، اسی لیے نوازلیگئیے اُنہیں”مسٹریُو ٹرن” کہتے ہیںحالانکہ وہ تو تبدیلی کے علمبردار ہیں ۔لوگ کہتے ہیںکہ سیاسی زندگی میںتواُن کی ناکامی کاسبب لال حویلی والے شیخ رشیداورلندن پلٹ چودھری سرورجیسے”انقلابی صلاح کار”ہیں، نجی زندگی میںاُن کی ناکامی کاسبب شایداُن کی تلون مزاجی ہو۔ بہرحال یہ اُن کاذاتی اورنجی معاملہ ہے ہمیں اِس سے کیالینا دینا۔
سب سے بڑے انقلابی توہمارے ٹھنڈے ٹھارمیاںنواز شریف نکلے جنہوںنے ”اندرواندری” نریندرمودی کو پتہ نہیں کیا گیدڑسنگھی سنگھائی کہ مودی جی اُنہیںسالگرہ کی مبارکباد دینے ”ٹھَک” سے پاکستان آن پہنچے ہماراتیزوطرار پریس اورالیکٹرانک شرمندہ شرمندہ کہ وہ اِس دَورے کی بھنک تک نہ پاسکے ،یہی حال بھارتی میڈیاکابھی ۔مودی جی دراصل حکومتی نہیں ،میاںصاحب کے ذاتی مہمان بن کرآئے ۔اسی لیے وہ سیدھے میاںصاحب کے گھر(جاتی عمرا) پہنچے اوروہیںسے بھارت پروازکر گئے ۔تاحال تومودی جی ،میاں صاحب کی مہمان نوازی کی تعریف میںٹویٹ پہ ٹویٹ کیے جارہے ہیںلیکن ذرابچ کے کہ کہیںیہ بغل میںچھری ،منہ میںرام رام نہ ہو۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر