تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
جناب شہباز شریف صاحب جالب کی شاعری پڑھ پڑھ کر” انقلابی”ضرور بنے ہوئے ہیں مگر غریبوں اور مزدوروں کے قطعی طور پر حامی نہ بن سکے ہیں۔میاں صاحب انقلابی ضرور بنو مگر پہلے غریبوں کے حامی تو بنو۔غالب امر یہی ہے کہ اپنے صنعتکارانہ کردار کی وجہ سے طبیعت ادھر کو نہیں آتی اور اس میں ان کا قطعاً قصوربھی نہ ہے کہ”کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز۔کبوتر با کبوتر باز با باز” ابھی بچوں سے مشقت کی ممانعت کا آرڈیننس بالواسطہ جاری فرماڈالاہے ۔مگر حکومتی بیورو کریٹوں ،متعلقہ وزراء و دیگر آرڈیننس تیار کرنے والے عقل کے اندھوں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ فیکٹریوں ،اینٹوں کے بھٹوں ، پٹرول پمپوں ،ہوٹلوں وغیرہ پر کیا آپ کے بیٹے مشقت کرتے ہیں۔
ہرگز نہیں یہاں پر تو صرف وہ بچے کام کرتے ہیں جن کو ان کے والدین نے بہ امر مجبوری اور اپنے پیٹ کی بھٹی کو بذریعہ”پیسہ ایندھن “سلگتا رکھنے کے لیے بطور انسانی ایندھن تپتی دھوپ میں جلنے اور ٹھٹرتی سردیوں میں مرنے کے لیے بھیج رکھا ہے۔ روئے زمین پرکوئی ہی مائی کا لعل ایسا ہو گا جو پھول جیسے ننھے بچوں اور اپنے جگر گوشوں کو بچپن سے ہی ایسے کاموں پر لگانا پسند کرتا ہو ۔جس کے تین چار بچے ہیں اور خود عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے دل پر پتھر باندھ کر بہ امر سو طرح کے عذروں کے بچوں کو علی الصبح کام پر بھجواتے ہیں جو رات گئے واپس پہنچتے ہیں۔
کئی کی تو شادی ہی بوجوہ غربت لیٹ ہوئی تھی تو بڑا بچہ کام کرکے گھر کے چولھے کا ایندھن نہ لائے گا تو گزارا کیسے چلے گا؟بھائی صاحب ! آپ ایک محنت کش لوہار کے بیٹے ضرور ہیں مگر وہ آپ کے والد بزرگوار تھے۔جنہوں نے محنتی کام ضرور کیا مگر آپ تو بچپن سے گزر گئے تو سونے کا چمچا منہ میں ڈال دیا گیا۔ کو ٹھیاں ،کاریں،نوکر چاکر اور سرمایہ کی ریل پیل آپ نے اپنے گھرمیں دیکھی ہے ۔آپکو کیا پتا کہ یہ ظالم غربت کیا چیز ہوتی ہے۔
یہ کس بلا کا نام ہے ” جس تن لاگے اس تن جانے “دوپہر کو محنت کشوں کے گھروں میں کھٹی لسی اور گڑ سے دو روٹی کھانا بھی مہنگا پڑتا ہے۔آپ کو غالباً پتا ہی نہیں ہو گا کہ تیس فیصد غریب عوام کے گھروں میں سالن پکتا ہی نہیں۔ وہ پھر بھی مہنگی سبز مرچیں اور نمک کی چٹنی یا سادہ پیاز کاٹ کر گزارا کرتے ہیں۔آپ حضرات کے عزیز اسحاق ڈار تو کہہ سکتے ہیں کہ دال سبزی مہنگی ہے تو مرغی کھائیں۔تاکہ آپ کے عزیز و اقارب کا یہ کاروبار زیادہ چمکے،ڈھیروں سرمایہ جمع ہواور مزید افراد پانامہ لیکس یاکسی دوسرے ملک میں رقوم دفناتے رہیں۔ادھر جو دال سبزی بھی خرید نہ سکیں وہ کہاں جائیں؟دنیا بھرکے صرف پانچ درجن کے لگ بھگ افرادکے پاس پوری دنیاکی نصف دولت ہے یہ صرف سرمایہ دارانہ ،سود خورانہ معیشت کے ہی کما ل ہیں کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں اس کا توڑ تو صرف اور صرف اسلامی نظام معیشت ہی میں ہے۔
جس کی تفصیلات سید مودودی کی معرکعة الاآراء کتب معاشیات اسلام ،سود اورنجات اللہ صدیقی کی غیر سودی بنک کاری میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ظالمانہ نظام سرمایہ داری کے خاتمہ کے لیے آج بھی دنیا ان سے رجوع کرسکتی ہے ۔آپ نے چائلڈ لیبر آرڈیننس ہی جاری کرنا ہے تو کم ازکم 30فیصد وہ آبادی جن کے پاس کچھ بھی کھانے پینے کو نہ ہے ۔صرف وہی کم عمر بچہ کما کر لاتا ہے اور سارے کھاتے ہیں۔ان کے گھروں کے چولھے تو آپ نہ بجھا ڈالیے ان آبادیوں کو ماہانہ کم ازکم 30ہزار روپے فی خاندان بھیجنے کا انتظام پہلے کرو پھر آرڈیننس جاری کرتے پھرو ۔و گرنہ آپ سے پھر میٹرو ٹرین اور اورنج بسوں والا بلنڈر ہورہاہے”غربت آرڈیننس “تیس ہزار ماہانہ بھجوانے والا پہلے جاری کرو اور دوسرا آردیننس بعد میں۔
غریبوں کے گھروں میں جھانک کر تو دیکھو وہاں کیا گزرتی ہے؟کیا آپ وہاں مہمان بن کر ہی سہی ایک دن رات گزار سکتے ہیں؟ ائیر کنڈینشنڈ جاتی امرائی(رائیونڈی) محلات اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے قائدین بنی گالائی اور زرداری ،بلاول ہائوسز و سرے محلات میں رہ کر غربت کا مزہ کیا جانیں گے کہ یہ کس کس مرض کو دعوت دیتی ہے جس سے غریب مختلف بیماریوں کا شکار ہیں اور دوائی خریدنا ان کی اوقات سے دور اور ہسپتالوں میں تو اسپرین کی گولی بھی سفارشیوں کو ہی ملتی ہے۔
کیا آپ بھی ان مخصوص بچوں کی طرح مشقت کرتے رہے ہیںہرگز نہیں تو پھر آپ اور ان بیچاروں کے والدین کی تو سوچ میں زمین و آسمان جتنا فرق ہو گا ۔وہ بھی چاہتے تو ضرور ہیں کہ آپ کے بچوں کی طرح ان کے بچے بھی مخمل پہنیں موٹر سائیکلوں،کاروں پر گھومیں پھریں شام کا کھانا کسی فائیو سٹار ہوٹل میں تناول فرمائیں مگر دو وقت کی پیٹ کی آگ ہی نہیں بجھتی اسلئے بچوں کو ایسے کامو ں پر لگا رکھا ہے۔ مجبوری کا نام شکریہ ہے۔ اگر فوراً رزق کے لیے دھندا نہ کریں تو آپ کی سکیم کے تحت کب تین کروڑ بچے ہنر مند ہوں گے۔ اور آپ ان کو ملازمتیں دے کر ان کے گھروں کے چولہوں کو بجھنے سے بچائیں گے۔”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک”آپ سر کارکے پاس ملازمتیں موجود ہوتیں تو پڑے لکھے بیروزگار کیوں مارے مارے پھرتے حکومتی بڑھکوں سے تو غربت دور نہیں ہو سکتی”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے”۔
آپ کی سکیم کے تحت چالیس،پچاس ہزار بچے ہنر مند عرصہ دو سال میں ہو سکیں گے جب کہ سالانہ شرح پیدائش ہی ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔اس طرح تو اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہ ہوا ۔0.0005فیصد اگر ہنر مند ہو بھی جائیں تو باقی کا کیا بنے گا؟جتنے بچوں پر مشقت نہ کرنے کی پابندی آپ لگانا چاہتے ہیںان کے گھروں میں خوشیاں لانے کے لیے رقوم بھیجو وگرنہ بابا یہ سب کہانیاں ہیں!میری معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں دھکا شاہی مت کریں ۔تین کروڑ بیروزگار بچوں کی فوج کو کن جیلوں میں بھرو گے ان کو کون سنبھالے گا۔چوری چکاری ،جیب تراشیوں اورموبائل و موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں سینکڑوں گنابڑھ جائیں گی کہ کام آپ نہیں کرنے دیتے اور ان بچوں نے ہر صورت گھر میں نان نفقہ بھی لے کر جانا ہے۔
بوڑھے بیمار والدین کا دوا دارو بھی! “ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا” سمجھدانیاں کمزور ہی نہیں بلکہ ناکارہ ہوچکی ہیں۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی !تین کروڑ بیروزگار بچوں کو روزگار آپ نہیں دے سکتے جیلوں میں جگہ نہیں۔عمرانی قادریہ دھرنے،پانامہ لیکی دھندے تو شاید آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں مگر غریب، نڈھال، بھوکے، پیاسے بچوں کے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے جلوس آپ کے اقتدار کو ضرور لے ڈوبیں گے اسی لیے ابھی وقت ہے کہ مشقت کا ممانعتی آرڈیننس واپس اورغربت مکائو آرڈیننس تیس ہزارروپے ماہانہ ہر گھر پہنچانے والا جاری کر ڈالو۔انت بھلا سو بھلا۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری