کراچی (یس ڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ عام انتخابات 2013 کی دھاندلی میں افتخار چوہدری، نگراں حکومتوں،مسلم لیگ(ن) اور ایک میڈیا گروپ کا بڑا کردار ہے اور عمران خان کی اس سے متعلق تمام باتیں درست ہیں کیونکہ افتخار چوہدری کا (ن) لیگ سے گٹھ جوڑ تھا اوروہ پس پردہ ان کی حمایت کرتے تھے جو اب تک جاری ہیں۔
خصوصی انٹرویو میں پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ جب ملک میں انصاف کی عدم فراہمی ہو اور لوگ اپنے جائز مطالبات کے لیے کہیں نہ جاسکیں تو دھرنے ہی ہوتے ہیں،(ن) لیگ کی اکثریت صرف اسمبلی میں ہے لیکن حقیقی طور پر عوام ان کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے خلاف ہیں جس سے دھاندلی والی باتوں میں بھی کچھ حد تک حقائق نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دھرنوں سے متعلق اسکرپٹ پر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن پاکستان میں جس طرح کا ماحول چل رہاہے وہ معمولی نہیں ہے، ملک میں کسی ایک کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے اسکرپٹ ہونا چاہئے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ عوام نوازشریف کی حکومت کو یکسر مسترد کرچکے ہیں، ملک میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور عمران خان بھی وہی مانگ رہے ہیں جس کے حق میں ہوں لیکن میرے نزدیک ملک میں حکومت کے بجائے ماحول تبدیل ہونا چاہئے کیونکہ یہاں جو بھی اسمبلی میں آتا ہے وہ کرپشن کرتا ہے، ملک میں 58 ٹو بی کی اشد ضرورت ہے جس کے اختیارات صدر کے پاس ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں احتساب ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان کو لوٹ لیا گیا ہے، میں نے بیرون ملک سے پاکستان کا پیسہ واپس لانے کے لیے اقوام متحدہ کی سطح پر کوششیں کیں اور کوفی عنان سے بھی بات کی تھی کہ اس کے لیے کوئی قانون بنایا جائے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اربوں ڈالر باہر پڑے ہیں جنہیں واپس لانے کے لیے کوئی قانون ہونا چاہئے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ 2008 کے الیکشن 100 فیصد بہتر تھے لیکن اس بار الیکشن بالکل صحیح نہیں ہوئے کیونکہ جب نگراں حکومت ہی دھاندلی کرانا چاہے تو الیکشن کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے کیس میں بھی زیادتی کی گئی ہے، نوازشریف نے میرے ساتھ زیادتی کی اور کررہے ہیں جسے وہ خود بھگتیں گے جبکہ افتخار چوہدری بحیثیت چیف جسٹس مسائل کھڑے کرتے تھے وہ وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری سمیت افسران سے چھوٹے چھوٹے مطالبات کرتے تھے جن میں گاڑی کی تبدیلی کی بھی باتیں ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 99 میں جو کچھ ہوا میں نے خود نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے وہ سب کرنے پر مجھے مجبور کیا تھا کیونکہ شریف برداران خود ہی اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالتے ہیں اور یہ لوگ اب بھی اس طرح کے واقعہ ہونے کی حرکتیں کر رہے ہیں۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ ملک میں 1947 سے ریاست اور آئین کا تصادم رہا ہے، جب بھی فوج آئی ہے اس وقت ریاست اور آئین کا تصادم آیا ہے، جب ریاست نیچے جاتی ہے تو آئین کو بچانے کا کہا جاتا ہے اور جب ہم آئین کو بچاتے ہیں تو پھر ریاست جاتی ہے، اس وقت ملک میں جو صورتحال ہے اگر نوازشریف کی جگہ ہوتا تو استعفیٰ دے دیتا کیونکہ عوام نوازشریف کے حق میں نہیں ہے صرف ٹیلی ویژن پر آکر عوام کے اپنے ساتھ ہونے کے دعوے کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے جبکہ میں نے بھی عوام کو اپنے ساتھ نہ پاکر استعفیٰ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے کسی ریفری کی ضرورت ہے جو ریڈ کارڈ دکھائے اور ریڈ کارڈ نوازشریف کے علاوہ فوج اور عدلیہ کے پاس بھی ہے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ نوازشریف پنگا ماسٹر ہیں وہ خواہ مخواہ پنگا لیتے ہیں اور پھر مصیبت میں الجھے رہتے ہیں، نوازشریف حکومت نہیں صرف سیاست کرتے ہیں، نوازشریف نے آپریشن ضرب عضب کا اچھا فیصلہ کیا لیکن اس پر انہیں فوج نے راضی کیا کیونکہ طالبان سے مذاکرات کا کوئی سر پیر نہیں تھا وہ صرف وقت کا ضیاع تھا یہ آپریشن بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا، لوگوں کے سر کاٹ کر فٹبال کھیلنے والوں سے کس طرح مذاکرات ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ ملک میں عبوری حکومت آئے جو اصلاحات لائے اور پھر الیکشن کرائے جائیں جب کہ نوازشریف کو بھیجنے کے لیے امپائر یا ریڈ کارڈ کی ضرورت ہے، پرویز مشرف نے کہا کہ مجھے باہر جانے کا کوئی موقع نہیں ملا یہ سب غلط باتیں ہیں اور اگر کوئی سمجھتا ہےکہ میں جاکر واپس نہیں آؤں گا تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔