تحریر: عالیہ جمشید خاکوانی
جس طرح ہم اپنے گھر کا کوڑا نکال کر دوسروں کے گھروں کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ پھر کسی نہ کسی طرح وہ گند اٹھتا ہے تو غریبوں کی بستیوں میں ڈال دیا جاتا ہے غریب تو بے چارہ گند کے ساتھ رہنے کا عادی ہوتا ہے وہ زمین کے اس ٹکڑے کو ہی غنیمت سمجھتا ہے جو گندا سہی مگر اس کا سر چھپانے کی جگہ تو ہے۔
پھر کسی دن اچانک کسی دولت مند کو خیال آجاتا ہے او ہو یہ تو لوکیشن کے حساب سے بڑی قیمتی جگہ ہے اس کا محل وقوع بہت اعلی ہے یہاں کمرشل بنیادوں پر بہت مال کمایا جا سکتا ہے۔ اب پہلے تو وہ متعلقہ اداروں کو بریف کیس بھیج کے رام کرتا ہے پھر غنڈے بھیج کے بستی کے لوگوں کو ہراساں کرواتا ہے کہ جگہ خالی کر دین تب بھی وہ چمٹے رہیں تو قانون کا سہارا لیتا ہے قانون بھی معذرت کر لے تو پھر ان لوگوں کو جلوا دیتا ہے یا مار دیتا ہے۔
ایک آہ و بکا اٹھتی ہے ،رونا چلانا ،چیخنا ۔۔۔۔تب وہ دولت مند ایک نئے روپ میں سامنے آتا ہے وہ انکے ہمدرد کا روپ دھار لیتا ہے انہیں متبادل جگہ فراہم کرتا ہے ،مالی مدد بھی کرتا ہے وہ لوگ جو دھونس دھاندلی سے بھی نہ اٹھتے تھے اب اس کے احسان مند ہو کر نقل مکانی کر جاتے ہیں اور کسی اور کچی بستی میں کوڑاکرکٹ پہ گھر بنا لیتے ہیں۔
وہ جگہ کچھ عرصہ خالی رہتی ہے لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں عالی شان بلڈنگیں کھڑی ہونے لگتی ہیں لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں مگر کچھ نہیں کہتے ۔بلکہ وہی غریب وہاں مزدوری پاکر خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو جی روز کی دیہاڑی ملنی شروع ہوئی گھر کا چولہا جلنے لگا!۔
تحریر: عالیہ جمشیدخاکوانی