پاکستان میں سیاسی صورتحال کی تیزرفتار تبدیلی نے جمہوریت کی بقا کو لاحق خطرات میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
پانامہ کیس میں نا اہل ہونے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کسی بھی صورت جارحانہ سیاست سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ بڑے میاں صاحب نے شاید تہیہ کر لیا ہے کہ’’ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں‘‘ اور اسی وجہ سے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے عدلیہ اور فوج کو سخت ترین الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ مزید زور پکڑ رہا ہے۔
یوں معلوم ہوا ہے کہ میاں نواز شریف ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت فوج اور عدلیہ کی قوت برداشت توڑ کر ملک میں غیر آئینی اقدام چاہتے ہیں تا کہ وہ اس بنیاد پر تمام الزامات اور سزاوں سے پاک صاف ہو کر پھر سے وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہو سکیں اور اگر اپنا نہیں تو کم ازکم مریم نواز کیلئے وزارت عظمی کا راستہ کلیئر کروا سکیں۔
جاوید ہاشمی کو دوبارہ سے مسلم لیگ(ن) میں شامل کرنا بھی اس جانب نشاندہی کرتا ہے کہ میاں نواز شریف فوج اور عدلیہ کے خلاف فیصلہ کن حملہ کیلئے جاوید ہاشمی کے تند وتیز اور بے لگام انداز بیاں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی ن لیگ میں شمولیت کا اتنا فائدہ خود ن لیگ کو نہیں ہوا ہے جتنا کہ تحریک انصاف کو ہوا ہے کیونکہ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ایک سازش کے تحت جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف استعمال کیا گیا تھا اور اس حوالے سے خواجہ سعد رفیق نے مبینہ سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا جبکہ اس وقت میڈیا میں خواجہ سعد رفیق اور جاوید ہاشمی کے درمیان ٹیلی فونک رابطوں کا ڈیٹا بھی دکھایا گیا تھا۔
تین برس تک جاوید ہاشمی باضابطہ طور پر ن لیگ میں شامل نہیں تھے لیکن وہ اس تمام عرصہ کے دوران بوقت ضرورت ن لیگ کیلئے مختلف خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں ۔کئی مواقع پر جب ن لیگ پر اسٹیبلشمنٹ کا دباو بڑھتا محسوس ہوا تب جاوید ہاشمی پریس کانفرنس میں عدلیہ اور فوج پر حملہ آور ہوتے رہے۔ جاوید ہاشمی نے ن لیگ سے بغاوت کی اور تحریک انصاف میں شامل ہوئے، اس وقت جب وہ تقریر کیلئے سٹیج پر آتے تھے تو ’’باغی‘‘ کے نعرے گونجا کرتے تھے لیکن کئی دہائی تک سیاسی سنگ میل رہنے والے جاوید ہاشمی نے جب تحریک انصاف سے بغاوت کی تو ان کیلئے ’’داغی‘‘ کا نعرہ بنا جو آج ضرب المثل بن چکا ہے۔
جاوید ہاشمی کی باتوں کو اب عوام اور سیاسی حلقے سنجیدگی سے نہیں لیتے لہذا داغی بنیں یا باغی،اب وہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ میاں نواز شریف کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج اپنی جماعت کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے۔ قومی اسمبلی سے پارٹی صدارت کی ترمیم منظور کروا کر بظاہر ن لیگ نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ متحد ہے لیکن واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ اندرون خانہ کیا تقسیم پیدا ہو چکی ہے اور کتنے اراکین اسمبلی’’مناسب‘‘ وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔
اس وقت وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کی ٹوٹی پھوٹی حکومت کی وجہ سے یہ تقسیم منظر عام پر نہیں آرہی جیسے ہی حکومت ختم ہوئی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ سب سے خوفناک لڑائی تو خاندان کے اندر ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی تمام تر کوشش اور میڈیا میں ’’مفاہمت‘‘ کا تاثر بنانے کی کاوشوں کی آج بھی اصل حقیقت یہی ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان تخت کے حصول کی رسہ کشی جاری ہے۔
پیپلز پارٹی کے قائد آصٖف علی زرداری بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ سندھ میں قوم پرست جماعتوں کے اتحاد نے ان کیلئے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ ابھی تک تو آصف زرداری نے ن لیگ کیلئے اپنے بیانات میں کوئی نرم گوشہ ظاہر نہیں کیا ہے لیکن حتمی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ کسی سطح پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان بیک ڈور تعلقات موجود نہیں ہیں۔
سید خورشید شاہ ’’وچولے‘‘کا رول بخوبی نباہ سکتے ہیں اور ماضی قریب میں چوہدری نثار نے شاہ جی پر یہ الزامات بھی عائد کیئے تھے کہ وہ حکومت سے غیر معمولی فوائد حاصل کر رہے ہیں، دوسری جانب چیئرمین سینٹ رضا ربانی کے بعض اقدامات سے بھی ن لیگ کو ریلیف یا فیور دینے کا تاثر محسوس کیا جاتا رہا ہے۔
عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کیلئے ’’کم بیک‘‘ کرنے کا موقع پیدا ہو چکا ہے۔ عمران کے گزشتہ ایک ماہ کے دوران جلسوں نے تحریک انصاف کو بہت فعال کر دیا ہے لیکن عمران خان آج بھی ماضی کی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے ابھی تک انتخابی امیدواروں کی سکروٹنی اور حتمی اعلانات کا سلسلہ شروع نہیں کیا ہے ممکن ہے عمران خان اور ان کے ساتھی اس شش وپنج میں ہوں کہ معلوم نہیں انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اور انتخابی حلقہ بندیوں کا انجام کیا ہوتا ہے،ایسے میں امیدواروں کا اعلان کر کے پارٹی میں نئی رسہ کشی کیوں شروع کی جائے۔
عمران خان کو انتخابات کے انعقاد کے متعلق غیر یقینی صورتحال کو نظر انداز کر کے انتخابی امیدواروں کا اعلان شروع کر دینا چاہیئے۔ قبل از وقت انتخابات ہوں یا بروقت دونوں صورتوں میں وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ تحریک انصاف کے امیدواروں کو اپنے حلقوں میں مضبوط کمپین چلانے اور عوام سے ووٹ مانگنے کیلئے مناسب وقت درکار ہے لہذا رواں ماہ کے دوران انتخابی امیدواروں کا اعلان شروع کردینا ہی تحریک انصاف کے مفاد میں ہوگا۔
ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان اصل سیاسی معرکہ پنجاب میں ہوگا اور پنجاب میں سے بھی گھمسان کی جنگ لاہور میں لڑی جائے گی۔ ن لیگ نے ہمیشہ لاہور کو اپنا سیاسی قلعہ قرار دیا ہے لیکن اب صورتحال قدرے تبدیل ہو چکی ہے گو کہ ابھی بھی پلڑا ن لیگ کا ہی بھاری ہے لیکن لاہور میں تحریک انصاف کے اچھے امیدواروں کا چناو ہوا تو ’’اپ سیٹ‘‘ ممکن ہے۔
عبدالعلیم خان نے لاہور میں گزشتہ تین، چار برس کے دوران بہت محنت کر کے ن لیگ کی اجارہ داری کو چیلنج کیا ہے اور متعدد حلقوں میں جیتنے کی استعداد رکھنے والے امیدوار موجود ہیں لیکن ضروری ہے کہ تمام حلقوں میں مضبوط امیدوار کھڑے کیئے جائیں۔ لاہور کے انتخابی حلقوں اور امیدواروں کے حوالے سے آئندہ کالم میں تفصیل سے تجزیہ کریں گے ۔ ختم نبوت ﷺ کے معاملہ پر ن لیگ کو ناقابل تلافی سیاسی نقصان ہوا ہے اور پنجاب میں ووٹ بنک میں کمی آنے کا خدشہ ہے ایسے میں تحریک انصاف کو پنجاب میں سیاسی سرگرمیاں اور عوامی رابطہ مزید بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔