تحریر: ضیغم سہیل وارثی
نئی بنیادیں وہی لوگ رکھ سکتے ہیں جو اس را زسے واقف ہوتے ہیں کہ پرانی بنادیں کیوں بیٹھ گئی ہیں۔
کبھی تو دل کا کہا دل سے وہ سنے گا ہی
یہ قطرہ سنگ میں سوراخ تو کر ئے گا ہی
ترقی یافتہ ممالک کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں پالیسیاں ایسی بنا ئی جاتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے مسائل کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ اور جب عقل کی بجائے اپنی ذاتی مفاد کولے کر خواہشات پوری کی جائیں تو جلال الدین رومی کا کہنا ہے کہ عقل کو خو اہش پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ عقل زمانے کو تمہارے ہا تھوں میں دیتی ہے جبکہ خواہش تمہیں زمانے کاغلام بناتی ہے۔
خواہش کا کو ئی معیا ر ہو ا کرتا ہے
کیسی خواہش ہے کہ مٹھی میں سمند ر ہوتا
بقو ل تمام سیا ست دانوں کے جو اپنے دورے حکومت میں با آواز بلند فرما رہے ہو تے ہیں کہ ہمارا ملک اب تر قی کی راہ پر گامزن ہے ،تما م عوام کی طرح اس خاکسا رکو بھی مجبوری میں یقین ہو جاتا تھا ،مگر حقیت کیا ہے ؟حقیقت اچھی طرح واضع ہو تی ہے صرف اتنی سی بات پر کہ اب جا کر کہا جاررہا ہے کہ اعلی افسران کو اعلی عہدوں پر فائز کرنے سے پہلے کمٹیی بنائے جائے گی اور اس کی سفارش پر عمل کیا جائے گا ۔یعنی کہ تر قی کے دعوے کرنے والے بیو رو کر یسی میں ایسا نظام تر تیب نہیں دے سکے جس سے ایک نظام کے تحت سسٹم چلے کہ کون سا قابل افسراپنی کسی کارکردگی کی بنا اس کس لیول پر جا کر کا م کر ئے ۔قابل اور محنتی لو گو ں کا حق تب مارا جاتا ہے جب اس دائرے سے باہر کی طاقت کا استعمال کر کے منظوری کروائی جاتی ہے ۔قارئیں اندازہ لگائیں ملک کا نظام چلانے والے اعلی بیو وکر یسی میں ان حالا ت میں آکر یہ سو چ رہے ہیں کہ معاملات ٹھیک کر نے کے لئے کمیٹی بنائی جائے ۔یک طر ف دہشت گردی جس سے ملک کو کوئی حصہ محفوظ نہیں ہے ،پشاور سے لے کر کراچی تک،مذہبی مقام جات سے لے کر سرکاری عمارت تک سب تک دہشت گردوں کی پہنچ ہے ۔دوسری جانب عوام اپنے پیاروں کو کھو کر بھی ایسی زند گی گزار رہے ہیں کہ اس غر بت کی حالت کو دیکھ کر حکمرانوں کو ہو ش لینا چاہیے ۔جب کو ئی مسائل سر چڑھ کر بولتا ہے تو عوام کا اتنا سا احتجاج ہو تا ہے کہ پہلے سے کیوں حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تاکہ اس مسئلہ کو جلد قابو کر لیا جاتا ۔جب حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ پلا ننگ کرنے میں ست رفتاری کیوں دیکھا جاتی ہے ۔صرف ایک بار نہیں ایسے اکثر واقعات رونما ہو تے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔تازہ مثال پٹرول کی قلت ،واہگہ باڈر پر حملے سے کچھ دن پہلے اطلاع ملے گئی تھی ،کچھ دن پہلے لاہورمیں پولیس لائن میں حملے کی رپو رٹ پہلے سے مو جود تھی مگر کو ئی رکاوٹ تک نہیں سامنے آئی ،اس حملے میں ایک پولیس اہلکار معطلی کے بعد پہلے دن ڈیو ٹی پر گیا تھا اور شہا دت اس کے نصیب میں تھی ۔عوام کا رونا یہ ہے کہ ایک طر ف دہشت گردی ہے اور ساتھ ملک میں بے روزگاری،مہنگا ئی ،باقی معاشرتی مسائل ان پر تو قابو کیا جائے یا کچھ بہتری نظر آئے۔چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ زیادہ وسائل کا استعمال دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے استعما ل ہو رہے ہیں ،اس کے ساتھ حکومتی حلقے میں بھی تو یہ دیکھنے کو ملے کہ شاہی اخراجا ت میں کنڑول کیا گیا ہو ۔ملک کو اس وقت زیادہ وسائل درکا ر ہیں مگر اس جانب اور ہا تھ کھول کر اخراجا ت کیے جارہے ہیں ،یا ضائع نظر آتا ہے تو پھر مسائل پر کیسے کنٹر ول ہو گا۔
ملک کا نظام چلانے والے اس بار بھی قابل افسران کو نظر اندا ز کریں گے تو اپنے ذاتی مفاد کی غرض سے دوسروں کی خواہش پورا کرنے کے لئے طاقت کا غلط استعما ل کرتے ہیں تو پھر کیسے مستقبل کے بارے مثبت پلا ننگ ہو سکے گی ۔ایسا پھر ممکن نہیں ہو گا ۔اقتدار میں موجود پارٹی کے بارے یہی گلہ ہو تا ہے کہ الیکشن میں جس شخص کو عوام نے ووٹ کے ذریع نظر انداز کیا ہو تا ہے ،بعد میں جا کر اس شخص کو منظور نظر ہونے کے ناطے سے ایسی ذمہ داری سونپی جاتی ہے جس منصوبے میں اربوں کے اخراجات ہو تے ہیں ۔اس طرح کی حرکات کے بعد ضرور سننے کو ملتا ہے کہ اس منصو بے میں اتنے کی کر پشن ہو ئی ہے ،صاحب کر پشن تو ہو نی ہے کیو نکہ جو اثر سورخ استعمال میں لا کر سر براہ بنتا ہے اس نے اپنا حساب بھی تو برابر کرنا ہو تا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ متعلقہ محکمے میں اس منصوبے کی ذمہ داری کسی افسر کو کیوں نہیں دی گئی تاکہ وہ اپنی پرو فائل پلس کرنے کے لئے اپنا کا م احسن طر یقے سے سر انجام دیتا ۔اگر یہ کہا جائے کہ قابل ہیں نہیں تو بھی سوا لیہ نشان کس کی طرف ؟۔اس کا مطلب کھلے الفا ظ میں کسی کا حق مارا گیا ہو گس کی وجہ سے کو ئی قابل شخص اوپر نہیں آیا ۔اس طرح کے مو ضوع پر بحث کرنا بہت عام سی بات محسو س ہو تی ہے ،مگر باقی دنیا کی بات کریں تو وہاں اس طرح کی کو تائی ہر گز بر داشت نہیں کی جاتی ۔یورپ جیسے ممالک میں معمولی سی کر پشن پر منسٹر خوسیٹ چھوڑ دیتے ہیں ،تب جاکر وہاں کی عوام کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا جو ہمارے ملک میں مسائل بر داشت کر رہے ہیں۔
مخصوص حلقہ اس بات کو زیر بحث لا رہے ہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کر اچی کا دورہ کیا ،اور اس موقعہ پر جو وزیر اعظم نے اعلانات کرنے تھے وہ آرمی چیف نے کیے اور جو اعلانا ت آرمی چیف نے کرنے تھے وہ وزیر اعظم نے کیے ۔مشکل وقت میں حکومت اور فوج کندھے سے کند ھ ملا کر چل رہے ہیں اور تمام مسائل پر مل کر حکمت عملی کی جا رہی ہے جس سے عوام دو چار ہیں تو ان معاملات میں قبا عت کیا جس کے بارے بحث کی جارہی ہے ۔یا اس سے ملک کا کیا نقصان ہو نا ہے ۔پہلے یہی حلقہ کہتا تھا کہ (ن) لیگ کے ہر دور میں فو ج کے ساتھ نہیں بنی جس کی وجہ سے خسارہ ہو تا رہا ہے۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ باقی سیاسی جما عتوں کی طرح (ن) لیگ کی پا رٹی غلط فیصلے کر تی رہی ہے ،اب مثبت اقدامات اٹھا ئے جارہے ہیں تو ان کو ویلکم کرنا چاہیے ۔جہاں تنقیدکرنی اس سے گریزبھی نہ کیا جائے ۔مگر اتنا خیال رکھا جائے کہ اداروں کے درمیان تصادم کی فضاء نہ قائم کی جائے ۔ملکی نظام چلانے کی مشینری میں بہت سی خرابی ہیں اگر فوج اور حکومت مل کر درستگی کرنا چاہتی ہے تو اس اقدام کو مثبت لیا جائے ۔مشر ف دور میں نواز شریف لندن تقر ریر کرنے گے تو وہاںلوگوں کا نعر ہ تھا کہ میاں نواز شریف قدم بڑھا ئو ہم تمہارے ساتھ ہیں تب نواز شریف صاحب نے کہا تھا کہ بارہ اکتو بر کے بعد عوام نظر نہیں آئی تھی ،(ن) لیگ کو اب بھولنا نہیں چاہئے کہ اس بار عوام نے ان کو حکومت کرنے کا موقع دیا ہے تو عوام کے مسائل کا سنجیدگی کے ساتھ حل تلا ش کیا جائے تا کہ بعد میں یہ نہ کہا جائے کہ عوام پیچھے نظر نہیں آرہی ہے ۔نئی بنیا دیں وہی رکھ سکتے ہیں جو اس راز سے واقف ہو ں کہ پرانی بنیا دیں کیو بیٹھ گئی تھیں۔
کبھی تو دل کا کہا دل سے سنے گا ہی
یہ قطرہ سنگ میں سوراخ تو کرئے گا ہی
تحریر: ضیغم سہیل وارثی