counter easy hit

صراط مستقیم

Prayer

Prayer

تحریر: کوثر جہاں
کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں، ایک اللہ اور رسولۖ کو ماننے والے والے، مگر ہماری راہیں اور ہماری سوچیں اس قدر جدا اور مختلف کیوں؟ کوئی بھی مذہبی تہوار ہو تو ایسے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جاتا ہے گویا اللہ کے بنائے ہوئے سارے اصولوں پر پورا اترتے ہیں ،ہر فرض ادا کرتے ہیں ۔آپ ۖ کا ارشاد مبارک ہے کہ، مسلمان اور کافر کے بیچ فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔

رسولۖ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز سے دوری۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کا امتی بنایا اور ہم پانچ وقت کی نماز بھی ادا نہ کرسکیں تف ہے ہماری اس حالت پر۔پردہ فرض ہے پھر بھی خواتین پردہ سے اس طرح ہچکچا تی ہیں جیسے کہ کتنا بڑا بوجھ ہے ۔اور سب سے انوکھی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی کی بیٹی کے لئے کسی داڑھی والے نیک مرد شخص کا رشتہ آ جائے تو اس کی ایمانداری ،نیک نیتی اور اور دین سے محبت کو چھوڑ کر صرف اسی بات پہ دھیان دیا جاتا ہے کہ کہیں زیادہ پردہ نہ کروائے ،ایسا نہ ہو کہ ہماری بیٹی قید ہوکر رہ جائے ،اور اسی سوچ کی بناء پر ایک اچھے رشتے کو ٹھکرا دیا جاتا ہے۔

ہمیں یہ تو گوارہ ہے کہ ہماری بیٹی کو ایسا شوہر ملے جو اسے کھلے عام بے پردہ لے کر گھومے مگر یہ نہیں کے عورت کو دین کی حدود میں رکھنے والا شوہر ملے ،تاکہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں سنور سکیں ۔بالکل اسی طرح اگر کوئی بہن دین کی طرف رغبت اختیار کرتی ہے اور خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اگر حجاب کو ڈھال بنائے تو نجانے کتنے لوگ اس کی مخالفت میں کھرے ہوع جاتے ہیں۔پردہ اور داڑھی جو کہ ہمارے مذہب کی خوبصورتی ہے اس کو صرف اور صرف شدت پسندی کا نام دیا جاتا ہے ۔جس میں ہمارے میڈیا کا بھی اہم کردار ہے ۔نت نئے فیشن کے کپڑے اور جولری ،ہیئر اسٹائل ،آزادنہ ماحول کہ اگر کوئی لڑکی پردہ کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتی۔

اچھا پہنے اوڑھنے کا حکم ہمارا مذہب بھی دیتا ہے مگر اپنی حدود میں رہتے ہوئے ،یہ میڈیا آہستہ آہستہ انٹر ٹینمنٹ کے نام پر ہماری تر جیحات کو بدل رہا ہے اور ہم نہ صرف اس سے محفوظ ہورہے ہیں بلکہ کس طرح اس کے زیر اثر آرہے ہیں ہمیں خود بھی اندازہ نہیں ۔راہ حق جانتے ہوئے بھی ہمارا معاشرہ بے راہ روی کی طرف چل نکلا ہے ۔سب جانتے اور مانتے ہیں کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو اسکی وجہ ہمارے گناہ ہیں ۔ریسرچ سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین کے اندر کچھ پلیٹس ہیں جن کی ردوبدل کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں ۔مگر نادان انسان یہ نہیں سمجھتے کہ وہ جو کل کائنات کا بادشاہ ،جو کہ بلا شبہ ہر چیز پہ قادر ہے وہ چاہے تو بنا ہلائے بھی ان کی جگہ تبدیل کر سکتا ہے۔

پچھلی امتوں کو جن گناہوں کی وجہ سے نیست و نا بوت کیا گیا اس امت میں وہ سارے گناہ ہورہے ہیں ۔مگر آقائے دو جہان ۖکے امتی ہونے کے ناطے ہم اب تک اللہ کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں ،یہ وارننگز دی جاتی ہیں ،کہ سنبھل جائیں ،اپنے دین ،اپنی اصل پہچان کو نہ صرف مانیں بلکہ خلوص دل سے اپنائیں بھی ۔اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ کیا آپ اللہ سے ڈرتے ہیں ،تو ہم جوابا کہتے ہیں کہ ہاں میں ڈرتا یا ڈرتی ہوں۔

غور کیجئے کہ ہمارے جواب میں کتنی صداقت ہے۔اور ہم اوروں کے سامنے کوئی گناہ نہیں کرتے کہ کسی نے دیکھ لیا تو ہماری بے عزتی ہو گی ۔لیکن وہ رب کریم جس کی نگاہ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے جو دلوں کے حال سے بخوبی واقف ہے ہم اس پاک ذات کے سامنے بے شمار گناہ کرتے ہیں ،اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم صرف زبان سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ سے ڈرتے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا خوف ہمارے دل میں نہیں اترا جس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو جائے اسے اللہ کی معیت حاصل ہو جاتی ہے ،اسے اللہ کی پناہ مل جاتی ہے اور اگر گناہ ہو جائے تو اس کا دل کانپ اٹھتا ہے ،اور اس کے ڈر کا انعام یہ ہے کہ نبی پاکۖ فرماتے ہیں کہ اے میرے صحابیوں ؛اگر کوئی اللہ کا بندہ رب کے خوف سے اتنا رودے کہ اس کی آنکھ سے مکھی کے سر کے برابر آنسو ٹپک جائے تو اللہ اس کے ٧٠ سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔(مشکواة)۔اور یہ اللہ کے خوف کی نعمت اور شان ہے کہ جس سے اللہ راضی ہو جاتا ہے اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں اور اس کو اللہ کی اطاعت حاصل ہو جاتی ہے۔

Allah

Allah

چنانچہ اللہ کے حضور پیشی سے ڈریں اور سچے دل سے توبہ کریں ۔دھیان رکھیں کہ آزادی کی آڑ میں ہم نے جس ماڈنرزم کو اپنایا ہوا ہے وہی کل اخروی زندگی میں ہماری گردنوں کا طوق بن جائے گا اور اللہ کی بنائی ہوئی جو حدود ہمیں اس فانی اور عارضی زندگی میں پابندی اور قید نظر آتی ہیں ،وہی ہماری آخری اور ہمیشگی کی زندگی میں راحت اور سکون کا باعث بنیں گی۔ انشاءاللہ

یہی تجھ کو دھن ہے رہوں سب سے بالا، ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا ،
جیا کرتا ہے کیا یوں ہی مرنے والا، تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا،
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے ، یہ عبرت کی جا ء ہے تماشا نہیں ہے۔

تحریر: کوثر جہاں