تحریر : میر افسر امان
اس میں کوئی شک بات نہیں کہ نواز شریف صاحب نے ٢٠١٣ء کے انتخابات میںدو تہائی اکثریت حاصل کی تھی۔عوام نے اس کو پانچ سال حکومت کرنے کا حق دیا ہے۔ پاکستان کی سنجیدہ سیاست کرنے والی سیاسی پارٹیا ںاس بات پر متفق ہیں کہ نواز حکومت کو اپنے پانچ سال مکمل کرنے چاہییں ۔ اس وقت ہمارا ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کو حالات خراب نہیں کرنے چاہییں۔ ملک میں افترتفری پھیلا کر وقت سے پہلے انتخابات کی بات کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ اس طرح تو کوئی بھی سیاسی حکومت نہیں چل سکے گی ۔ملک میں افراتفری ہو گی۔ ملک میں ترقیاتی کام اور قانون سازی روک جائے گی اور ملک پیچھے کی طرف چل پڑے گا۔ ہاں اگر کوئی منتخب حکومت پاکستان کے آئین اور قوم کی اسلامی اجتماہی سوچ کے خلاف اقدام کرے تو اس کو وقت ا سے ہٹانے کی تحریک شروع کی جاسکتی ہے۔
گو کہ کچھ حلقوں کو نواز شریف کے سیکولر والے بیان اور بھارت سے دوستی کی پیگیں بڑھانے پر تشویش ہے پھر بھی آئین کی پاسداری اور اجتماہی سوچ رکھنے والے عناصر کو فی الحال ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی کہ وہ نواز حکومت کے خلاف کوئی راست اقدا م کرے کا اعلان کریں۔ ہاں نواز شریف وقت پر صحیح فیصلوں کی قوت سے عاری ضرور نظر آتے ہیں۔ جس سے عوام میں بے یقینی کی فضا قائم ہوئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے جنگ کی کفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ ملک کا ایک دانشور حلقہ کہتا ہے کہ اگر ملک میں اسلام کے نفاذ کی بات کرنے والوں کی بات اس وقت مان لی جاتی تو وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگتے ، دشمن ان کے ذہنوں کو پاکستان کے خلاف نہ کرتا او ر نہ ہی وہ ہتھیار اُٹھاتے نہ ہی موجودہ حالات پیدا ہوتے۔
کل ہی نجی ٹی وی پر بحث کے دوران ایک دانشور کہہ رہا تھا کہ ٢٠٠٧ء سے پہلے پاکستان میں کوئی خود کش حملہ نہیں ہوا تھا بعد میں حکومتوں کے نامناسب اقدام کی وجہ سے موجودہ کیفیت پیدا ہوئی۔ بحر حال ہم نوازشریف کے بر وقت فیصلوں کی بات کر رہے تھے۔ جب لندن میں سیاسی جماعتوں میں سیاسی مفاہمت کی یاداشت طے ہوئی تھی اس میں دہشت گردایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس پر سب جماعتیں متفق تھیں کہ ایم کیو ایم ایک فاشسٹ اور دہشت گرد جماعت ہے اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھے گا۔ مگر نواز شریف فیصلے پر کاربند نہیں رہے ۔ اسی اجلاس میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ ڈکٹیٹرمشرف کی حکومت کے تحت انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
مگر نواز شریف نے اس عہد کو بھی نہ نبھایا اور انتخابات میں حصہ لیا تھا اور ایم کیو ایم سے خوشگوار رابطے بھی رکھے تھے۔ نواز شریف ضرب عضب کے فیصلے کے وقت بھی پیچھے رہ گئے تھے۔ ملک میں یہ تاثرپھیلا اور اب تک بھی ہے کہ یہ فیصلہ فوج نے کیا تھا نواز شریف تو طالبان سے مذاکرات میں لگے ہوئے تھے یا ان کی خواہش ہی نہیں تھی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ہو۔ جب ایک سیکولر صحافی جو پاکستان کے ایک بڑے نجی ٹی وی کا مشہور اینکر اور پروگرامر بھی ہے پر قاتلانہ ہوا تھا۔اور اس صحافی اور اس کے بھائی نے آئی ایس آئی کے حاضر چیف پر اس کا بے بنیاد الزام لگایا تھا ۔ اس نجی ٹی وی نے بھارت کی ایماء پر آٹھ گھنٹے تصویر کے ساتھ آئی ایس آئی کے حاضر چیف پربے بنیاد الزام دوہرایا تھا۔
اس وقت بھی ایک ملک کے سربراہ ہونے کے ناطے نواز شریف نے نہ تو وقت پر فیصلہ کر کے اس نجی ٹی وی کو اس کام سے روکااور نہ ہی فوج سے رابطہ کیا تھا۔ فوج اور پاکستان دشمن امن کی آشا چلانے والے نجی ٹی وی کی سرزنش بھی نہیں کی۔جب تحریک انصاف نے الیکشن میں نواز شریف کے خلاف منظم دھاندلی کے الزامات لگائے تھے تو فوج مخالف لابی نے اس دھرنے میں فوج کی اشیر آباد کا پروپیگنڈاکیا تھا۔نواز شریف اس وقت بھی بر وقت کوئی صحیح فیصلہ نہ کر سکے گوں مگوں کی حالت میں رہے۔ غلط پروپگنڈا کا توڑ نہیں کیا ۔ بعد میں اپنے ایک وزیر کو میڈیا میں پیش کر دیا۔
اس نے فوج کے چیف پر بھی الزام لگایا تھا جو نامناسب تھا۔ اگر کسی کو غلط فہمی تھی تو فوج کے چیف سے نواز شریف ملاقات کر کے معاملے کو پریس میں آنے کے بجائے آپس میں ہی حل کر سکتے تھے مگر نواز شریف فیصلہ نہ کر سکے۔ اس سے پہلے دور حکومت میں اُس وقت کے صدر سے اختلافات اگر پیدا ہو گئے تو ان کو بھی پریس میں لانے کے بجائے مل بیٹھ کر حل کرنا پاکستان اور خود نواز شریف کے حق میں تھا مگر نواز شریف نے بر وقت فیصلہ کرنے کے بجائے پریس میںبیان دیا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لو ںگا وغیرہ۔اب تازہ واقعہ یہ ہوا کہ دہشت گردوںنے لاہور کی سیر گاہ اقبال پارک میں خود کش حملہ کر کے پچھتر سے زائد کو شہید اور تین سو سے زائدبے گناہ عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو زخمی کر دیا۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ نواز شریف فوج کو حکم دیتے کہ دہشت گردوں کے خلاف پنجاب میں آپریشن شروع کیا جائے مگر یہاں بھی وہ بروقت فیصلہ نہ کر سکے اور فوج نے ازخود آپریشن شروع کر دیا۔اس پر بھی میڈیا میں لے دے ہو رہی ہے۔ بھارت کے حاضر نیوی کے ملازم اور اکے ایجنٹ کو جب آئی ایس آئی نے گرفتار کیا تو نہ تو اپنے خطاب میں اس اہم بات کو قوم کے سامنے پیش کیا اور نہ ہی اس قومی مسئلہ کو دنیا کے سامنے بروقت رکھا۔ یہ قوم کا مسئلہ تھا اور قوم کے مسئلے کو قوم کے لیڈر کو ہی قوم کے سامنے پیش کرنا تھا نہ کہ فوج کو۔ فوج کے آئی ایس پی آر کے چیف نے اس معاملے کو قوم کے سامنے پیش کیا۔ کیا نواز شریف کو فوج نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا نہیں یقیناً نہیں ۔یہ نواز شریف کے بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے ہوا۔ عورتوں کے حقوق کا بل جو خلاف شہریت تھا جب مذہبی حلقوں کی طرف سے اس پر شور مچا تو نواز شریف نے پنجاب حکومت کی سرزنش کی اور کہا کہ مجھے اس کا پتا ہی نہیں تھا۔
ارے صاحب ،آپ کیسے حکومت کے سربراہ ہیں جن کو کوئی بھی کچھ نہیں بتاتا۔ نہیں نہیں میاںصاحب پاکستان کے معاملات پر آپ کے دھیمے رویہ کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ سنی تحریک کے دھرنے کو ہی لے لیں ۔ اسحاق ڈار اورخواجہ سعد رفیق نے سنی تحریک کی طرف سے آئے ہوئے معزز علماء کے ساتھ سات نکاتی معاہدہ کیا جس کو پاکستانی میڈیا نے عوام کے سامنے پیش کیا ۔جب دھرنا ختم ہو گیا تو چوہدری نثار خان صاحب نے پریس کانفرنس کی اور کہا سنی تحریک سے مذاکرات کرنے کی حکومت نے کسی کو بھی اجازت نہیں دی۔ جب کہ اسحاق ڈار صاحب کہتے ہیں کہ نواز شریف کی مرضی سے کامیاب مذاکرات کیے گئے ہیں۔ جس وجہ سے دھرنہ ختم ہوا۔
کیا نواز شریف نے چوہدری نثار صاحب کو کچھ کہا اور مذاکراتی ٹیم کو کچھ کہا۔صاحبو! کیا کیا بیان کیا جائے یہ ساری باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نواز شریف صاحب میں بروقت صحیح فیصلے کرنے کا فقدان ہے۔ وہ ہر معاملے کو دھیمے دھیمے انداز میں لیتے ہیں جس سے ان کی شخصیت بری طرح متاثرہو رہی ہے۔ لیکن لوگوں کو اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ عوام نے انہیںپانچ سال حکومت کرنے کا اختیار دیاہے ۔ لوگوں کی صرف یہ گزارش ہے کہ وہ حو صلہ کر کے معاملات کو بروقت صحیح فیصلہ کر کے حل کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ ملک میں افوائیںنہ پھیلیں۔ اللہ ہمارے ملک کو افواہیںپھیلانے والے دشمنوں سے محفوظ رکھے آمین۔
تحریر : میر افسر امان