تحریر : انجینئر افتخار چودھری
سچ تو یہ ہے کہ ہم سچ وہ سننا چاہتے ہیں جو ہمارے دل کو لگے۔مگر کیا کیا جائے سچ وہ لاش ہے جسے ہزار پتھروں کے ساتھ باندھ کر سمند ر میں پھینکو وہ ابھر کر باہر آتی ہے۔کائنات میں ہر دور میں سچ کو دبانے کی کوشش کی گئی۔دنیا بھر میں ایساہی ہوا کہ کہ چند لوگ بیٹھے انہوں نے سوچا فیصلہ کیا کہ ہمارا سچ یہ ہے جن کے پاس ابلاغ کے ذرائع تھے ان سے اپنے من بھاتا سچ کو پھیلا دیا لوگ اسے سچ سمجھنے لگے۔حالیہ تاریخ میں سب سے بڑی جنگ عراق کی جنگ ہے جس میں ایک ملین سے زیادہ لوگ مار دیے گئے دنیا کو بتایا گیا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں۔اس بڑے جھوٹ کو ایک سچ بنا کر پیش کیا گیا۔لوگوں کو اکٹھا کر لیا گیا۔زمینی خدا کا فیصلہ تھا سب مل کر ایک ایسے ملک پر چڑھ دوڑے جس کے پاس کیمیاوی کیا عام ہتھیار بھی نہ تھے۔ایک واحد میزائل جس نے دمام میں کچھ ہلاکتیں کیں وہ حسین مزائل تھا جس کے پائپ میں کچھ میٹر لوہے کا پائپ ویلڈ کر کے اسے دمام تک پہنچایا گیا۔خوف اتنا تھا کہ لوگوں نے دو دو سو ریال کی روٹیاں لے کر کچن بھر لئے۔(میں ان دنوں جدہ میں تھا)۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے جب ملک بنتے ہیں تو یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ اس کا قومی شاعر کون ہو گا اس کا خالق تو واضح ہوتا ہے اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔پاکستان بنا اس کے بانی قائد اعظم تھے اس پر کسی کوکوئی اختلاف نہیں ہے مگر تخلیق پاکستان کا خواب دیکھنے کا سہرا حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے سر باندھ دیا گیا۔یہ خود علامہ اقبال کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔اقبال چین و عرب ہمارا کی بات کرتے تھے وہ نیل کے ساحلوں سے تا بخاک کاشغر کا رونا روتے رہے ہم نے انہیں پاکستان کا خواب دہندہ بنا کر پیش کیا ۔پاکستان کے لوگوں کے ساتھ زیادتی تو کی ہی گئی خود علامہ جو اسپین گئے تو مسجد قرطبہ میں روتے رہے امت کی بربادی کے نوحے لکھتے رہے انہیں ٹیڈی بنا کر ہم خوش ہو گئے۔وہ اقبال جن کا ترانہ ہند بھی گنگناتے ہوئے ہمارے کشمیر پر چڑھ دوڑا ۔وہ اپنے گم گشتہ ماضی کی رفعتوں عظمتوں کے متلاشی دکھائی دیے۔ہم نے انہیں پاکستان کا خواب دیکھنے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ان کی ایک تصویر جس میں وہ گہری سوچ میں گم دکھائی دیتے ہیں اس طرح پیش کی گئی جیسے وہ ہر وقت سوتے تھے اور کسی سوچ میں گم رہتے تھے۔
علامہ اقبال امت کا درد رکھنے والے شاعر تھے۔جسے مصر کی مغینہ ام کلثوم نے بھی گایا۔ایران میں چلے جائیں اقبال لاہوری کے نام سے وہ ایرانیوں کے شاعر نظر آتے ہیں۔جرمن شاعر گوئٹے کے بارے میں اقبال اس پیار سے لکھتے ہیں کہ جرمنی ایک سڑک ان کے نام کی جاتی ہے۔اقبال ہمارا فخر اس لئے تھے کہ وہ اس خطے میں پیدا ہوئے۔انہوں نے کبھی مطالبہ پاکستان کی بات نہیں کی وہ ہندوستان کے اندر رہ کر محدود آزادی کا مطالبہ کرتے تھے صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابگل بھی انہی پابندیوں رہ کر حاصل آزادی کو توکر لے٦٨ سال گزر گئے ہمیں لاہور کے ایک جریدے نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ۔حضرت اقبال کو اتنا چھوٹا کر دیا کہ وہ ایک ایک ایسے ملک کے خالق بنا دیے گئے جس کے بارے میں انہوں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔البتہ خطے کے مسلمانوں کے لئے درد رکھتے تھے۔ہند کے اندر رہ کر محدود آزادی کی بات تو ضرور کیسچ تو یہ ہے کہ پاکستان کا خواب چودھری رحمت علی نے دیکھا تھا خطبہ ء الہ آباد سے بہت پہلے۔١٩١٥ میں اسلامیہ کالج کی بزم شبلی میں سر عام کھل کر کہا کہ ہماری ہندوئوں سے نہیں بنتی۔
ہمارے کھانے الگ فکر الگ سوچ مختلف جس کو ہم کھا جاتے ہیں وہ ان کی پوجا کرتے ہیں۔اس وقت تو ہندو مسلم اتحاد کی بات کی جاتی تھی جب اس مرد حر نے کہا تھا الگ ہو جائو چانکیہ کے پرستروں سے کھا جائیں گے یہ آپ کو اپنے دریائوں کے سوتے لے کر رہو ورنہ یہ تمہارے میدانوں کو صحراء بنا دیں گے۔تمہاری مسجدیں تباہ کر دیں گے۔انہوں نے الگ الگ مسلم ریاستوں کی بات کی تھی پ سے پنجاب الف سے افغانہ ک سے کشمیر تان بلوچستان سے لیا۔کبھی بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے کی بات نہیں کی انہوں نے اسے بنگلستان کا نام دیا تھا جو اب بن چکا ہے۔حیدر آباد انڈیا کے لئے فاروقستان کا نام تجویز کیا تھا۔ میں نہیں کہتا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ مل کر موجودہ پاکستان کے بانیوں میں شامل ہیں۔لیکن عمارتیں ایسے ہی نہیں بنتیں سب سے پہلے اس کا تصور ہوتا ہے پھر ایک آرکٹیکٹ ہوتا ہے پھر سول انجینئر نقشے ہاتھ میں لے کر تعمیر شروع کرتے ہیں۔اقبال کو آپ اسلامی کانفرنس کا تخلیقی موجد تو کہہ سکتے ہیں۔
مگر پاکستان کا موجد چودھری رحمت علی ہی ہے۔٣ فروری کو ان کا یوم وفات ہے۔اس درویش شخص جسے ایک عظیم صحافی دانشور نے تحریک پاکستان کا ابو ذر غفاری کا پیرو کار قرار دیا تھا وہاں انگلینڈ میں امانتا دفن ہے۔اسے پاکستان لایا جائے۔وہ باچا خان نہ تھے جس نے اس پاک دھرتی میں دفن ہونا گوارا نہیں کیا تھا جس کی اولاد اس ملک کا کھاتو رہی ہے مگر اس تھالی میں سو چھید بھی کر رہی ہے۔جلال آباد میں مدفون کو پاکستان سے نفرت تھی رہے نفرت اس کے پیروکاروں کو لیکن وہ فقیر جس کے پاس کفن کے پیسے نہ تھے وہ نمونیا کا شکار ہو کر کیمرج کے قبرستان میں دفن ہو گیا مرنے سے پہلے کہہ گیا مجھے وہاں کی مٹی میں دفن کرنا۔مجھے تو لگتا ہے انکے بازو میں ہماری حمیت بھی دفن ہے ورنہ ہم اس مرد حر کو وطن لا چکے ہوتے۔
چودھری رحمت علی کا جسد خاکی چودھری شجاعت حسین لا رہے تھے مگر جناب مجید نظامی مرحوم کو کافی تکلیف محسوس ہوئی اور انہوں نے شور مچا دیا میں نے تو انہیں کہہ بھی دیا تھا کہ لگتا ہے کہ مردہ رحمت علی آپ کے ٤ اے شارع فاطمہ جناح کے دفتر پر قبضہ کر لیں گے۔ان سے اس موضوع پر متعدد میٹینگز ہوئیں جن میں ان کا زور اس پر تھے کہ وہ قائد اعظم سے شدید اختلاف رکھتے تھے۔میں نے عرض کیا وہ تو نوابزادہ نصراللہ مفتی محمود مولان مودودی بھی رکھتے تھے۔ہر بار کی نشست کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا تھا ہم ان کے معتقد تھے اٹھ آتے۔ہمیں اپنی تاریخ سے رجوع کرنا ہو گا۔حکیم مشرق کو چھوٹا نہ کریں انہیںچودھری رحمت علی کی کرسی پر جبرا نہ بٹھایا جائے۔ انہیں لا کر اسلام آباد میں دفن کیا جائے۔حقدار را حق رسید۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری