آج دنیا بھر میں اِنسانوں اور جانوروں کے حقوق کی پامالی پر اِنصاف اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے امریکا کا وہ اصل چہرہ بھی بے نقاب ہوگیاہے جو اَب تک امریکانے دنیا سے چھپا کر رکھا تھا ا واشنگٹن سے آنے والی صرف اِس ایک خبر نے دنیا بھرمیں وہ ساری امریکی ڈھکوسلے بازیاں عیاں کردی ہیں آج جن کے سہارے امریکا اِنسانوں اور جانداروں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بنا پھرتا تھا۔
اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج امریکا کا صدر بارک اوباما ہے جس کا تعلق بھی ایک سیاہ فام قبیلے سے ہے مگر آج اِس کے باوجود بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوباما بھی اپنے امریکی گوروں کے معاشرے پر اپنا اثر رسوخ قائم رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں اور اُس طرح اپنی کامیابی کا سکہ منواکر خود کو سیاہ فام طبقے کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ثابت نہیں کرسکے ہیں جتنا کہ اِنہیں اَب تک کامیاب ثابت کر لینا چاہئے تھا اِس پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اَب تک امریکی گوروں نے کسی سیاہ فام کو اپنا صدر تسلیم ہی نہیں کیا ہے، یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
بہرحال..! گزشتہ دنوں امریکی ریاست میسوری کے بعد نیویارک میں بھی پولیس کے تشدد سے ایک سیاہ فام قیدی ایرک گارنر (جِسے پولیس افسر ڈینئیل پینٹلیو نے 17 جولائی کو صرف اِس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا تھا کہ 43 سالہ آنجہانی ایرک گارنر بغیر ٹیکس سکریٹ فروخت کر رہا ھا) کی ہلاکت کے پیش آنے والے اندھولناک واقعے نے نیویارک میں ہزاروں افراد کو سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ اور احتجاج کرنے پر ضرور مجبور دیا ہے۔
اَب اِس منظر اور پس منظر میں یہ حقیقت ہے کہ امریکا میں پیش آئے اِس واقعے کے بعد ساری دنیا میں امریکا سے متعلق یہ تاثر ضرور چلا گیا ہے کہ آج بھی امریکا میں گوروں کے لئے قانون اور اِنصاف کے تقاضے کچھ اور ہیں اور کالوں کے لئے قانون ایسا نہیں ہے جیسا کہ امریکی معاشرے میں قانون کی کتابوں میں درج ہے۔
آج امریکی پولیس کی حراست میں سیاہ فام ایرک گارنر کی ہلاکت نے امریکی قانون کی دھجیاں بکھیری کررکھ دی ہیں،یوں یقینا ساری دنیا میں امریکی معاشرے میں روارکھے گئے گورے کالے کے حقوق کے بھرم کا شیرازہ بھی کرچی کرچی ہوکررہ گیا ہے اور دنیا کو یہ بھی پتہ لگ گیا ہے کہ آج امریکا جیسے دنیا کے سب سے بڑے اور سُپر پاور مُلک ہونے کا درجہ حاصل ہے وہاں بھی گورے امریکیوں کے لئے حقوق کچھ اور ہیں تو وہیں سیاہ فام طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کے لئے امریکی قوانین کیا ہیں…؟ اور اِنہیں کتنے حقوق حاصل ہیں ..؟اور اِن کے لئے مریکی قانون میں اِنصاف اور حقوق کے لئے کتنی گنجائش ہے…؟آج دنیا کو وہ سب کچھ بھی معلوم ہو گیا ہے۔
واشنگٹن سے خبرراساں ادارے (اے ایف پی) نے خبر دی ہے کہ ” امریکی ریاست میسوری کے بعد نیویارک میں بھی گرینڈجیوری نے ایک سیاہ فام قیدی ایرک گارنر کو ہلاک کرنے کے کیس میں ایک اور پولیس افسر پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ دے دیا، گرینڈ جیوری کے فیصلے کے خلاف نیویارک میں ہزاروں افراد سڑکوں پر آگئے اور احتجاجی مظاہرے کئے جس پرپہلے سیاہ فام امریکی صدر بارک اُوباما نے مظاہرے اور احتجاج کرنے والے مشتعل افراد کو پُرسکون رہنے کی ہدایت کر دی، جبکہ خبر راساں ادارے کا اپنی خبر میں وثوق کے ساتھ یہ بھی کہناہے کہ ” امریکا کی گرینڈ جیوری نے نیویارک میں سیاہ فام شہری ایرک گارنر کی موت کے کیس میں نیویارک پولیس کے اہلکارپر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ دیا جس کے بعد مُلک میں پہلے سے جاری سیاہ فام آبادی کی جانب سے پُرتشدد مظاہروں میں تیزی آگئی اور پچھلے دِنوں ہزاروں افراد سڑکوں پر آگئے۔
جبکہ مضافاتی علاقے اسٹیٹن میں بھی سیاہ فام افراد نے احتجاج کا سلسلہ پوری قوت سے شروع کر دیا، اِس پر آنجہانی گارنر کے اہلِ خانہ کے وکیل کا کہناہے کہ عدالت کے فیصلے سے حیرت ہوئی حالانکہ وڈیومیں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ اہلکار نے گارنرکو گلے سے دبایا ہواتھا جس کی وجہ سے اِس کی موت واقع ہوئی ،جبکہ دوسری طرف اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے اعلان کیاکہ شہری کی موت کے کیس کی تحقیقات کی جائے گی، تو اُدھرہی ایرک گارنر کاطبی معائنہ کرنے والے ڈاکٹرز کا دو ٹوک کہناہے کہ گارنر کی موت اُس کا گلا دبنے کے نتیجے میں ہوئی، گارنر کے اہلِ خانہ کے وکیل جوناتھن مورکے مطابق اِنھیں اِنصاف کا قتل کردینے والے عدالتی فیصلے پر حیرت ہوئی ہے، متعصبانہ عدالتی فیصلے پرآنجہانی گارنر کے اہلِ خانہ اور وکیل جوناتھن مورکا موقف سامنے آجانے کے بعد امریکا کے شہر نیویارک اور بہت سے مضافاتی علاقوں اور سیاہ فام بستیوں میں گرینڈ جیوری کے فیصلے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں اور احتجاجوں پر سیاہ فام پہلے امریکی صدر بارک اُوباما نے اپنے شہریوں کو پُرسکون رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے
گرینڈ جیوری کی جانب سے قانون نافذکرنے والے اداروں سے متعلق جو فیصلے آئے اِس سے مُلک میں بسنے والی اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھنے پر مجبور ہو رہی ہیں،اِس پر نیویارک کے مئیرکابھی یہ کہناتھا کہ عوام کی اکثریت کے برخلاف جیوری کا فیصلہ آیا تاہم شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ پُرامن رہیں جبکہ عوام کا مشتعل ہونا یوں بجاہے کہ عوام کے نزدیک وڈیومیںدِکھائی دے رہاہے کہ پولیس افسرنے گارنر کو گرفتار کرکے ہتھکڑی پہنانی چاہی تو آنجہانی گارنرنے پہننے سے انکار کر دیا جس پرپولیس افسر پینٹلیو نے گارنر کوگردن سے پکڑا تو وہ یہ کہہ رہاتھاکہ سانس نہیں لے پارہا اور وہ گر گیا مگر ظالم پولیس افسر نے ایک نہ سُنی جس کی وجہ سے ایرک گارنر کی موت واقع ہوگئی“ آج جہاں اِس واقع نے امریکی معاشرے میں ٹیکس کے بغیر سکریٹ کی فروخت کرنے والے کی پکڑ کے قانون کی اچھائیوں کو دنیا میں روشناس کرایا ہے
تو وہیں ایک سیاہ فام قیدی آنجہانی ایرک گارنر کے قاتل پولیس افسر ڈینئیل پینٹلیو کو بچانے کے لئے عدالتی تعصبانہ فیصلے کو بھی بے نقاب کرکے رکھ دیاہے اور ساری دنیا کو پتہ چل گیاہے کہ امریکا میں گوروں کے لئے امریکی قوانین میں ڈھیرساری لچک ہے تو کالے امریکیوں کے لئے کچھ نہیں ہے، آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایرک گارنر کی یوں ہلاکت پر گرینڈجیوری کے فیصلہ سراسر نااِنصافی پر مبنی ہے اور آج ساری دنیا گرینڈ جیوری کے عدالتی فیصلے پر انگلی اُٹھارہی ہے اور ایسا اُس وقت ہوتا رہے گی جب تک گرینڈ جیوری گارنر کے قتل پر اپنا غلط فیصلہ پر امریکی شہریوں سے معافی نہیں مانگ لیتی …اور آنجہانی ایرک گارنر کے اہلِ خانہ کو اِنصاف نہیں مل جاتا ہے۔